Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علیحدگی پسند کشمیری رہنما یاسین ملک کو عمر قید کی سزا

انڈیا کی ایک خصوصی عدالت نے علیحدگی پسند کشمیری رہنما اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے کیس میں عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق یاسین ملک کو آج (بدھ کو) انڈیا کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے) کی عدالت میں بھاری سکیورٹی میں پیش کیا گیا جہاں جج پروین سنگھ میں فیصلہ پڑھ کر سنایا۔‘
یاسین ملک کو انڈین پینل کوڈ کی سیکشن 121 (ریاست کے خلاف جنگ کو فروغ دینے) کے جرم میں عمر قید سنائی گئی۔
انڈین اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق یاسین ملک کو دو مرتبہ عمر قید کی سزا سمیت دیگر 10 جرائم میں 10 سال قید بامشقت اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے اور فوری طور پر ان سزاؤں کے اطلاق کا حکم دیا ہے۔
گذشتہ ہفتے عدالت نے یاسین ملک کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے علاوہ دہشت گرد کارروائیاں کرنے، دہشت گرد تنظیم کا حصہ بننے اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کے تحت مجرم قرار دیا تھا۔
یاسین ملک کے خلاف انڈین فیصلے کے ردعمل میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ’ انڈیا یاسین ملک کو جسمانی طور پر تو قید کر سکتا ہے لیکن آزادی کے جس تصور کی وہ علامت ہیں، اس کا قید نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ’آج انڈیا کی جمہوری اور وہاں نے نظام انصاف کے لیے سیاہ دن ہے۔‘
’آزادی کی جدوجہد کرنے والے شخص کو عمر قید سنانا کشمیریوں کی اپنے حق خودارادیت کی جدوجہد میں نئی روح پھونکے گا۔‘
انڈین نیوز چینل اے بی پی نیوز لائیو نے اس سے قبل کی سماعت رپورٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے) نے عدالت سے یاسین ملک کو سزائے موت دینے کی درخواست کی۔

’میں یہاں کوئی بھیک نہیں مانگوں گا۔ آپ نے جو سزا دینی ہے دے دیجیے‘

اس پر یاسین ملک نے عدالت سے کہا:’میں یہاں کوئی بھیک نہیں مانگوں گا۔ آپ نے جو سزا دینی ہے دے دیجیے۔ لیکن میرے کچھ سوالات کا جواب دیجیے۔‘

 یاسین ملک نے سوال اٹھائے کہ اگر میں دہشت گرد تھا تو ملک(انڈیا) کے سات وزیراعظم مجھ سے ملنے کشمیر کیوں آتے رہے؟ اگر میں دہشت گرد تھا تو اس پورے کیس کے دوران میرے خلاف چارج شیٹ کیوں نہ فائل کی گئی؟
اگر میں دہشت گرد تھا تو وزیراعظم واجپائی کے دور میں مجھے پاسپورٹ کیوں جاری ہوا؟‘
اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے انڈیا سمیت دیگر ملکوں میں اہم جگہوں ہر لیکچر دینے کا موقع کیوں دیا گیا؟

یاسین ملک کو آج ہائی سکیورٹی میں عدالت لایا گیا ۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

عدالت نے یسین ملک کے سوالات پر ریمارکس دیے کہ ان باتوں کا وقت گزر گیا، اب یہ بتائیں کہ آپ کو جو سزا تجویز کی گئی ہے اس پر کچھ کہنا چاہتے ہیں تو بولیے۔
اس پر یاسین ملک نے کہا ’میں عدالت سے بھیک نہیں مانگوں گا۔ جو عدالت کو ٹھیک لگتا وہ کرے۔‘
اس سے قبل یاسین ملک نے کیس کے ٹرائل کے دوران خود پر عائد الزامات پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ جھوٹا اور سیاسی بنیادوں پر قائم کیا گیا۔ اگر آزادی کی جدوجہد جرم ہے تو میں یہ جرم کرنے اور اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔‘
یاسین ملک کو اپریل 2019 میں انڈیا کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے دو برس پرانے ’دہشت گردی اورر علیحدگی پسندی کے لیے فنڈنگ‘ کے ایک کیس میں گرفتار کیا تھا ۔ وہ اس مقدمے سے قبل مارچ سے ہی پپلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید تھے۔
علاوہ ازیں ان پر 1990 میں انڈین ایئر فورس کے چار افسران کو قتل کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا جس میں ان کے ساتھ سات دیگر افراد کو بھی نامزد کیا گیا۔
1995 میں اس کیس میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے سٹے آرڈر جاری کیا تھا جسے اپریل 2019 میں اسی عدالت نے ختم کر دیا تھا۔
یاسین ملک پر ایک الزام یہ بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے 1989 میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی ربیعہ سعید کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

یاسین ملک کون ہیں؟


سین ملک نے کیس کے ٹرائلز کے دوران نے ان الزامات پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں: فوٹو اے ایف پی

یاسین ملک انڈین زیرانتظام کشمیر کے معروف آزادی پسند لیڈر اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ( جے کے ایل ایف) کے چیئرمین ہیں۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پاکستان اور انڈیا کے درمیان منقسم ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور وحدت کی علمبردار ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک زائد دھڑے انڈیا اور پاکستان کے زیرانتطام کشمیر کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی سرگرم ہیں۔
یاسین ملک اپنے نوجوانی کے دور سے ہی آزادی پسند سیاست میں سرگرم ہو گئے تھے۔ انہیں کئی بار قید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ نوے کی دہائی کے وسط تک یاسین ملک کی جماعت انڈیا کے خلاف مسلح کاررائیوں کو درست سمجھتی تھی تاہم 1994 میں اس جماعت نے عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں یاسین ملک نے انڈین زیرانتظام کشمیر میں ایک دستخطی مہم بھی چلائی تھی۔ 
پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب انڈیا کی واجپائی سرکار سے کشمیر کے معاملے پر بات چیت کا اغاز ہوا تو یاسین ملک دیگر کشمیری حریت رہنماؤں کے ساتھ پاکستان کے دورے پر بھی آئے تھے اور ان کا پاکستان کے  زیرانتظام کشمیر میں بھرپور استقبال کیا گیا تھا۔

شیئر: