Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں گیان واپی مسجد کا تنازع کیا ہے؟

درخواست گزار ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ ابھی بھی اس مقام پر ہندو بت اور مورتیاں موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے شمال میں واقع وراناسی شہر میں لگ بھگ تین صدیوں سے مسلمان اور ہندو ایک ایسی مسجد اور مندر میں اپنے اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرتے چلے آ رہے تھے جن کے درمیان صرف ایک دیوار حائل ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مدتوں تک بین المذاہب ہم آہنگی کی علامت رہنے والی یہ جگہ آج کل انڈین مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تنازع کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ اس مسجد کا نام گیان واپی مسجد ہے۔
ہوا یوں کہ ایک مقامی عدالت نے رواں برس مئی کے مہینے کے شروع میں ہندو افراد کی جانب سے دی گئی ایک متنازع درخواست کی سماعت شروع کی، جس انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مسجد قرون وسطیٰ کے ایک ہندو مندر کی جگہ پر مغل شہنشاہوں نے قائم کی تھی۔ لہٰذا ان کے بقول یہ ہندوؤں کی زمین ہے۔
درخواست گزار ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ ابھی بھی اس مقام پر ہندو بت اور مورتیاں موجود ہیں جبکہ دوسرے فریق(مسلمانوں) کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اںڈیا کے مسلمانوں کو اکثریتی ہندو قوم پرستوں کی جانب سے حملوں کا سامنا ہے اور یہ مقدمہ بھی انڈیا میں مذہبی رواداری کو نقصان پہنچا کر اس کے سیکولر چہرے کو مسخ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
تجزیہ کار نیلنجان مکھو پادہائے نے کہا کہ ’اس طرح کے مقدمات درج کرانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ ان کی جانب سے انڈیا میں اپنے عقیدے کے عوامی اظہار کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘
خیال رہے کہ وراناسی کا شمار ہندوؤں کے مقدس ترین شہروں میں ہوتا ہے اور مؤرخین کی بڑی تعداد کا موقف ہے کہ قرون وسطیٰ میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے اس جگہ پر قائم ہندو بھگوان شیوا کے مندر کو گرا کر یہاں مسجد قائم کی تھی۔
اس سے قبل بھی ان دونوں مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے دعوؤں پر قائم تھے لیکن انہوں نے حالات کو اس قدر خراب نہیں ہونے دیا۔ لیکن گزشتہ ہفتے جب مقامی عدالت نے اس جگہ کے سروے کا حکم دیا تو حالات بگاڑ کا شکار ہو گئے۔
ویڈیو سروے میں ایک پتھر نما چیز کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ شیوا کی علامت ہے اور یہ مسجد میں اس مقام پر موجود ہے جہاں مسلمان نماز سے قبل وضو کرتے ہیں۔
ہندو درخواست گزاروں کے وکیل ہری شنکر جین نے کہا ہے کہ ’جس جگہ پر مسجد ہے، یہ ہندوؤں کی ملکیت ہے اور یہ انہیں واپس ملنی چاہیے۔‘
اس کے بعد مقامی عدالت نے مسجد کو سیل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس حکم کو معطل کر کے وہاں مسلمانوں کو اپنی عبادت جاری رکھنے کی اجازت دے دی تھی، تاہم شیوا کے مبینہ آثار کی جگہ کو سیل کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔

ہندو قوم پرستوں کا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان مغل شہنشاہوں نے قرون وسطیٰ کے ہزاروں مندوں کو گرا کر ان کی جگہ پر مساجد تعمیر کروا دی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)

اب وراناسی کی اعلیٰ عدالت میں اس کیس کی سماعت ہو رہی ہے۔
مسلمانوں کے وکلا اس مقام پر کیے جانے والے سروے کی ساکھ پر سوال اٹھا رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ یہ قانون کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ انڈیا کے ہندو قوم پرستوں کا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان مغل شہنشاہوں نے قرون وسطیٰ کے ہزاروں مندوں کو گرا کر ان کی جگہ پر مساجد تعمیر کروا دی تھیں جبکہ مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار مبالغے پر مبنی ہیں۔
اس مقدمے کے بعد انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر ماتھورا کی مقامی عدالت نے بھی گزشتہ ہفتے ایسی ہی ایک درخواست سماعت کے لیے منظور کی ہے۔ وہاں بھی مسجد اور مندر ساتھ ساتھ واقع ہیں۔

شیئر: