Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی انڈین ریاست کرناٹک میں ’اذان مخالف‘ اقدامات کی مذمت

ترجمان کا کہنا ہے کہ انڈین حکومت کو اقلیتوں کی حفاظت، سکیورٹی اور فلاح و بہبود یقینی بنانا چاہیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان نے انڈین ریاست کرناٹک میں ’انتہائی تشویشناک اذان مخالف‘ اقدامات کی مذمت کی ہے۔
منگل کو پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب  سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کرناٹک میں اذان کے خلاف لاؤڈ سپیکر پر مسجدوں کے باہر ہندوؤں کے مذہبی گیت ہنومان چالیسہ بجانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انتہائی افسوسناک واقعات سری رام سینا کے سربراہ کی جانب سے اذان کو ہنومان چالیسہ گا کر ’غرق کرنے‘ کی کال کے ایک دن بعد ہوئے۔‘
پاکستان نے کہا ہے کہ ’یہ انتہائی قابل مذمت ہے کہ ہندوؤں کے جنونی گروپوں کی جانب سے قابل نفرت مہم ’آذان سے آزادی‘ شروع کی گئی ہے جو کہ بی جے پی کی حکومت میں انڈیا میں مذہبی شدت پسندی کی نئی بلندیوں کو ظاہر کر رہا ہے۔‘
’انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بات نوٹ کی جا رہی ہے کہ انڈیا کے کئی ریاستوں میں مساجد سے لاؤڈ سپیکرز کو فرقہ ورانہ ہم آہنگی یقینی بنانے کے نام پر ہٹایا جا رہا ہے۔ ‘
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق انڈیا میں مسلمانوں کو اجنبی بنانے اور ان کو ان کے مذہبی عقیدے کے اظہار اور اس پر عمل کرنے کے بنیادی حق سے محروم کرنے کے اقدامات انڈیا کی ریاست اور معاشرے میں موجود گہرے مسلم مخالف تعصبات کو ظاہر کر رہے ہیں۔
پاکستان نے انڈین حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انڈیا میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف ہونے والے واقعات کی شفاف تحقیقات کرے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔
’انڈین حکومت کو اقلیتوں کی حفاظت، سکیورٹی اور فلاح و بہبود یقینی بنانا چاہیے۔‘
پاکستان نے عالمی برادری پر بھی زور دیا ہے کہ وہ انڈیا میں اسلامو فوبیا کی خراب ہوتی صورتحال کا نوٹس لے اور مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں اور حفاظت یقینی بنائیں۔

ممبئی کی مساجد لاؤڈ سپیکر پر اذان کی آواز کم کرنے پر مجبور

خیال رہے انڈیا کے شہر ممبئی میں ہندوؤں کے مطالبے کے بعد سینکڑوں مساجد میں اذان دینے کے لیے لاؤڈ سپیکر کی آواز کم کر دی گئی ہے۔
 برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ممبئی کی سب سے بڑی مسجد کے امام محمد اشفاق قاضی اذان دینے سے قبل لاؤڈ اسپیکر سسٹم کے ساتھ نصب آواز کی پیمائش کرنے والے آلے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ’ہماری اذان کی آواز ایک سیاسی مسئلہ بن گئی ہے، لیکن میں نہیں چاہتا کہ يہ معاملہ مذہبی رُخ اختیار کرے۔

راج ٹھاکرے نے مطالبہ کیا تھا کہ مساجد کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ شور کو ایک حد کے اندر رکھیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اشفاق قاضی اور انڈین ریاست مہاراشٹرا کے تین دیگر سینیئر مسلم مذہبی رہنماؤں نے اتفاق کیا ہے کہ اس ریاست کے مغربی حصے میں قائم 900 مساجد میں اذان دیتے ہوئے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم رکھی جائے گی۔ یہ فیصلہ مقامی ہندو رہنماؤں کی طرف سے درج کرائی گئی شکایات کے بعد کیا گیا ہے۔
ہندو جماعت کے رہنما راج ٹھاکرے نے اپریل میں مطالبہ کیا تھا کہ مساجد اور عبادات کے دیگر مراکز کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ شور کو ایک حد کے اندر رکھیں۔
انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو ان کے حامی بطور احتجاج مساجد کے باہر ہندو مذہبی نعرے لگائیں گے۔
راج ٹھاکرے کی جماعت مہاراشٹرا کی 288 رکنی ریاستی اسمبلی میں محض ایک نشت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تو محض عدالت کے اس فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں جو شور کا درجہ ایک حد میں رکھنے سے متعلق ہے۔
مہاراشٹرا کے ریاستی دارالحکومت ممبئی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے راج ٹھاکرے کا کہنا تھا، ’اگر مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے تو پھر مسلمانوں کو 365 دن لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت کیوں ہے؟
انڈیا کی 20 کروڑ کی مسلمان آبادی اس فيصلے کو انڈیا کے سخت گیر ہندوؤں کی طرف سے ان کی مذہبی آزادی اور حقوق کو محدود کرنے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھتی ہے۔

شیئر: