Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مندر کے لیے چندہ مہم، انڈین مسلمان ’خوف میں جینے پر مجبور‘

برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی نے 1992 میں ہجوم کو متحرک کر کے بابری مسجد کو نقصان پہنچایا تھا۔ (فائل فوٹو: رائٹرز)
انڈیا کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ ہندو مندر کی تعمیر کی متنازع فنڈ اکھٹا کرنے کی مہم کے دوران مسلمان فرقہ وارانہ کشیدگی کی نئی لہر سے خوفزدہ ہیں۔
عرب نیوز کی جمعرات کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، 16ویں صدی کی اس مسجد پر مسلمانوں اور ہندووں دونوں کا ہی دعویٰ تھا۔
کئی دہائیوں کے تنازعے کے بعد سپریم کورٹ نے 2019 میں ہندووں کے حق میں فیصلہ سنا دیا تھا اور جس جگہ مسجد موجود ہے، اس جگہ پر مندر بنانے کی اجازت دی تھی۔
برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی نے 1992 میں ہجوم کو متحرک کر کے مسجد کو نقصان پہنچایا تھا۔ بی جے پی کا دعوی تھا کہ یہ مسجد ’رام کی جائے پیدائش‘ پر بنی تھی۔
مسجد کی تباہی نے پورے ملک میں تشدد بھڑکا دیا تھا، جس میں دو ہزار لوگ مارے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس نے فرقہ وارانہ کشیدگی کی ایک لہر بنا دی، جو آج بھی قائم ہے۔
گذشتہ ہفتے، ورلڈ ہندو آرگنائزیشن، جو وشوا ہندو پریشد کے نام سے جانی جاتی ہے اور بی جے پیکی اتحادی جماعت ہے، نے مسلم برادری سمیت ہندو مندر کے لیے چندہ جمع کرنے کی 45 دن کی ملک گیر مہم کا آغاز کیا ہے۔
اتر پردیش کے ضلع بستی سے تعلق رکھنے والے سماجی ورکر، ابرار الحق نے منگل کو عرب نیوز کو بتایا کہ ’اس خطے کے مسلمانوں میں ایک واضح اضطراب پایا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہندو ورکرز ایک مہم کے نام پر مسلمان علاقے میں ریلی نکالتے ہیں اور لوگوں کو بھڑکانے کے لیے جان بوجھ کو اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں۔ یہ تناو اور تشدد کا باعث بنتا ہے۔‘
ابرار کا مزید کہنا تھا ’مسلمان مندر کی بحث کو بھولنا چاہتے ہیں، لیکن ہندو گروہوں کی تفرقہ بازی والی مہم انہیں بے چین کرتی ہے۔‘
وشوا ہندو پریشد کی باضابطہ مہم سے پہلے، دسمبر کے آخر میں مدھیہ پردیش کے ضلع اندور میں چندہ جمع کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں جھڑپیں ہوئیں۔
اندور میں مسلم اکثریت آبادی والے گاوں چندن کھیڑی کا رہائشی، صدام پٹیل اپنے چار بھائیوں کے ساتھ پرتشدد واقعے میں زخمی ہو گیا تھا۔
اس نے بتایا کہ ’ہم اپنے گھر میں تھے، لیکن ہجوم نے ہمارے دوسرے گھر کو آگ لگا دی۔ جب ہم وہاں سوئے ہوئے ایک بچے کو بچانے کے لیے پہنچے، تو انہوں نے ہم پر حملہ کر دیا۔‘
اندور سے ہی تعلق رکھنے والے سماجی ورکر، زیدی پٹھان کا کہنا ہے کہ خطے میں مسلم آبادی والے گاؤں خوف میں جی رہے ہیں۔
دوسری جانب وشوا ہندو پریشد نے تشدد کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا ہے۔ ان کے جنرل سیکرٹری سریندرا کمار جین نے اتوار کو کہا ’یہ بدقسمتی ہے کہ مسلمانوں نے گاؤں میں چندہ جمع کرنے کے لیے جانے والوں پر حملہ کیا۔‘
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی مندر کی تعمیر کو انتخابی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

شیئر: