Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا: عمران خان  ​

ملاقات کے دوران عمران خان نے کہا کہ انہیں نہیں پتہ کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہے۔ (فوٹو: فیس بک)
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جب وہ حکومت میں تھے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور پیغامات بھیجے گئے کہ اپنے ملک کا سوچیں، پیغام کس کی طرف سے آیا، یہ ابھی نہیں بتا سکتا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کے دوران سابق صدر آصف زرداری سے رابطوں کی بھی تردید کی ہے۔ 
ملاقات میں شریک صحافی رضوان غلزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سابق وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے ملاقات میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق بتایا کہ جب وہ حکومت میں تھے تو اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالا گیا تھا اور پیغام دیا گیا تھا کہ اپنے ملک کا سوچیں۔‘
’انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ دباؤ کس کی طرف سے تھا، تاہم یہ کہا امریکہ کے زیرِاثر مخصوص لابی مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کروانا چاہتی ہے۔‘
حالیہ دنوں میں پاکستانی نژاد امریکیوں کے ایک وفد کے اسرائیل سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں سوچتا تو یہ نظریہ پاکستان اور قائداعظم کے خواب کی نفی ہوتی۔ اس لیے اس دباؤ میں نہیں آیا۔‘
صحافی رضوان غلزئی کے مطابق عمران خان نے ملکی سیاسی صورتحال سے متعلق سوالات کے دوران اسٹیبلیشمنٹ کے کردار کے حوالے سے تبصرے سے گریز کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں پتا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہے۔‘

عمران خان کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ کسی ڈیل کے تحت لانگ مارچ ختم کیا۔ (فوٹو: فیس بک)

انہوں نے بتایا کہ ’جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ جن لوگوں کے نمبرز آپ نے بلاک کیے، کیا وہ اَن بلاک کر دیے تو انہوں نے کہا کہ میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔‘
لانگ مارچ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کی تاریخ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دوں گا۔
’یہ تاثر غلط ہے کہ کسی ڈیل کے تحت لانگ مارچ ختم کیا، مارچ ختم کرنے کا اعلان نہ کرتا تو خون خرابہ ہو جاتا۔‘
صحافی عبدالقادر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ملک ریاض کے درمیان ہونے والی گفتگو کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں 26 سال سے آصف علی زرداری کے بارے ایک ہی موقف ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی کی نورا کشتی جاری ہے۔ تو جو بات میں 26 سال سے کہہ رہا ہوں، اس سے آخری لمحات میں کیسے بدل سکتا ہوں؟ عدم اعتماد کے دوران ایسا کچھ نہیں ہوا جیسا تأثر دیا جارہا ہے۔‘
’عمران خان نے کہا کہ کوئی رکن استعفوں کی تصدیق کے لیے سپیکر کے سامنے پیش نہیں ہوگا اور اگر کوئی سپیکر کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس امپورٹڈ حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔‘

شیئر: