Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی ایم ایف کو پاکستان میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس سے کیا اعتراض؟

آئی ایم ایف نے پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ٹیکس سلیب کم کرکے ٹیکس بڑھائے(فوٹو: اے ایف پی)
اگلے مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں کمی کے فیصلے پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔
پاکستان کی وفاقی حکومت آئی ایم ایف ادارے سے معاہدہ بچانے کے لیے ٹیکس سلیب میں تبدیلی واپس لینے پر غور کر رہی ہے تاہم ابھی تک اس پر حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
حکومتی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف کی جانب سے قومی اسمبلی میں زیر غور بجٹ کے حوالے سے چند امور پر بات چیت کی جا رہی ہے تاہم حکومت کی کوشش ہے کہ کم آمدنی والے تنخواہ دار طبقے کو دیا گیا ریلیف برقرار رکھا جا سکے۔‘
یاد رہے کہ کابینہ کی جانب سے منظور ہونے والے فنانس بل کے مطابق انکم ٹیکس کے سلیبز کی تعداد 12 سے کم کر کے سات کر دی گئی ہے اور تقریبا ہر سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح کو کچھ کم کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے متعدد بار پوچھا کہ کیا وہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر ٹیکس سلیب کو پھر تبدیل کرنے جا رہے ہیں تو انہوں نے اس کا جواب دینے سے گریز کیا۔
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بحال کرنا اور تقریباً ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کی شدت سے ضرورت ہے اور اس ہی مقصد کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرکے ایک ہفتے میں قیمتیں ساٹھ روپے تک بڑھائی گئی تھیں۔ ذرائع کے مطابق آنے والے دنوں میں بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھائی جائیں گی اور آئی ایم ایف کے مطالبات مانتے ہوئے ٹیکس سلیب پر دوبارہ غور سمیت سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
سوموار کو آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی ریزیڈنٹ چیف ایستھر پیریز رویز نے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے مقامی میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ادارہ پاکستانی حکام سے بجٹ کے حوالے سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ ٹیکسز اور اخراجات کے حوالے سے وضاحت حاصل ہو سکے اور مکمل جائزہ لیا جا سکے۔

ایف بی آر کے سابق ممبر شاہد حسین اسد کے مطابق تنخواہ سے حاصل ہونے والا ٹیکس تقریباً 250 سے 300 ارب روپے ہے (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ابتدائی تخمینہ یہ ہے کہ بجٹ کو مضبوط بنانے اور اسے پروگرام کے کلیدی مقاصد کے مطابق لانے کے لیے اضافی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا عملہ اس سلسلے میں حکام کی کوششوں اور عمومی طور پر معاشی استحکام کو فروغ دینے کی پالیسیوں کے نفاذ میں تعاون جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔

آئی ایم ایف کو پاکستانی تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس چھوٹ سے کیا مسئلہ ہے؟

معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کی حکومت نے ٹیکس سلیب میں ترمیم کرکے تنخواہ دار طبقے کو جو ٹیکس میں چھوٹ دی ہے اس سے ملک کے جمع کردہ ٹیکس میں 47 ارب روپے کی متوقع کمی ہو گی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے معاشی امور کے تجزیہ کار اور صحافی شہباز رانا کے مطابق آئی ایم ایف کا پاکستان سے مطالبہ تھا کہ پاکستان 12 ٹیکس سلیب کو کم کرکے سات کر دے اور اس ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے۔
تاہم حکومت نے ٹیکس سلیب کو تو سات کر دیا مگر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے بجائے کم کر دی۔ گویا آئی ایم ایف کی آدھی بات مانی اور آدھی نہیں مانی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اقدام کی وجہ سے 47 ارب روپے کا آمدنی میں نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ 
شہباز رانا کے مطابق ’آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ناصرف 47 ارب کی کمی کو ختم کیا جائے بلکہ مزید ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھائی جائے تاہم پاکستانی حکومت کی اب بھی خواہش ہے کہ ایک لاکھ سے دو لاکھ تک روپے آمدنی والے صارفین کا ریلیف برقرار رکھا جائے۔‘

حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے ایف بی آر کے سابق ممبر شاہد حسین اسد نے اردو نیوز کو بتایا کہ تنخواہ سے حاصل ہونے والا ٹیکس تقریبا 250 سے 300 ارب روپے ہے اور اس میں تھوڑی کمی بیشی سے ملکی معیشت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، اس لیے آئی ایم ایف کو اس حوالے سے حکومت پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ عموماً مڈل کلاس یا کم آمدنی والا ہوتا ہے اور یہ ہمیشہ ٹیکس دیتا ہے اس لیے ان کو ریلیف دینا بنتا ہے۔ آئی ایم ایف والے تو ڈالرز اور پاؤنڈز کے حساب سے سوچتے ہیں اور ان کے خیال میں پاکستانیوں کی قوت خرید بھی اتنی ہی مضبوط ہے مگر ایسا نہیں ہے۔‘
معاشی تجزیہ کار مہتاب حیدر کے مطابق آئی ایم ایف کے پاکستان سے تین مطالبے ہیں ایک پیٹرول پر سبسڈی ختم کریں، دوسرا بجلی کی قیمت میں اضافہ کریں اور تیسرا ٹیکس سلیب کم کرکے ٹیکس بڑھائیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت پاکستان نے تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس میں 125 ارب کا اضافہ کرنا تھا مگر حکومت نے ٹیکس میں الٹا 47 ارب کا ریلیف دے دیا جس پر آئی ایم ایف کو اعتراض ہے۔
مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہر صورت میں آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال کرنا ہے کیونکہ دوست ممالک اور دیگر مالیاتی اداروں کی مدد بھی اسی سے مشروط ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتی منصوبہ ساز عالمی مالیاتی ادارے کی ہر بات ماننے پر مجبور ہیں۔‘

ٹیکس سلیب میں کیا تبدیلی آئی تھی؟

بجٹ دستاویزات کے مطابق اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں کم آمدن افراد کے لیے انکم ٹیکس میں کمی کرنے کی تجویز دی گئی  ہے جس کے بعد 12 لاکھ سالانہ سے کم آمدن والے افراد پر ایک سو رپے انکم ٹیکس لاگو ہوگا جبکہ 6 لاکھ سے کم آمدن والے افراد انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔
فنانس بل کے مطابق انکم ٹیکس کے سلیبز کی تعداد 12 سے کم کر کے سات کر دی گئی ہے۔
پہلے سلیب میں چھ لاکھ روپے سالانہ تک تنخواہ والے افراد ہیں جن پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا جبکہ دوسرے سلیب میں 12 لاکھ تک آمدنی والے افراد ہیں ان پر بھی صرف 100 روپے سالانہ ٹیکس ہے۔

اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں کم آمدن افراد کے لیے انکم ٹیکس میں کمی کرنے کی تجویز دی گئی ہے (فوٹو: ڈائمنڈ گیلری)

تیسرا سلیب ایسے افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدن 12 لاکھ سے 24 لاکھ تک ہے ان افراد کے لیے 12 لاکھ سے زیادہ آمدن پر سات فیصد کی فکسڈ شرح سے ٹیکس لاگو ہو گا۔
چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ تنخواہ 24 لاکھ سے زیادہ اور 36 لاکھ تک ہے، انھیں سالانہ 84 ہزار فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 12.5 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
پانچواں سلیب 36 لاکھ سے 60 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں اب دو لاکھ 34 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 36 لاکھ سے زیادہ آمدن پر ساڑھے 17 فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔
چھٹا سلیب 60 لاکھ سے ایک کروڑ 20 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں اب چھ لاکھ 54 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 60 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 22.5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
ساتواں اور آخری سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدن ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہے، انھیں اب 20 لاکھ چار ہزار فکسڈ ٹیکس جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 32.5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

شیئر: