Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرویز مشرف کی واپسی: ’نواز شریف کے پاس دوسرا راستہ نہیں‘

نواز شریف کی دوسری حکومت میں مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سابق فوجی جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کا شمار پاکستان کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کے سب سے بڑے مخالف سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) رہی ہے۔
اس مخالفت کی وجہ جاننے کے لیے صرف دو دہائیوں پیچھے جانا پڑے گا جب سنہ 1999 میں پرویز مشرف نے نواز شریف کی دوسری حکومت گرائی تھی اور بعد میں سابق وزیراعظم کے خلاف طیارہ سازش کیس سمیت دیگر کیسز بھی مشرف حکومت نے ہی بنائے تھے۔
پھر جب سنہ 2013 میں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو ان کی حکومت نے ہی آئین توڑنے کے الزام میں مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ بنایا تھا۔
اسی مقدمے میں ایک خصوصی عدالت نے سنہ 2019 میں دبئی میں مقیم پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔ تاہم بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
سابق فوجی جنرل اس وقت شدید علیل ہیں اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ 10 جون کو ان کے خاندان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ مشرف پچھلے تین ہفتوں سے ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں جہاں صحتیابی ممکن نظر نہیں آتی۔
آل پاکستان مسلم لیگ کی جنرل سیکرٹری مہرین ملک نے اردو نیوز کے روحان احمد کو بتایا کہ سابق فوجی صدر کی حالت تاحال تشویشناک ہے۔
مشرف کی پاکستان واپسی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مہرین کا کہنا تھا کہ ’مشرف صاحب کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ اپنے وطن واپس آئیں کیونکہ وہ پاکستان سے بہت پیار کرتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی پاکستان واپسی کا فیصلہ ان کے خاندان کو کرنا ہے اور ان کی اہلیہ اور صاحبزادے میڈیا سے بات نہیں کرتے اس لیے اس حوالے سے جب بھی فیصلہ ہوگا پرویز مشرف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے سب کو آگاہ کردیا جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ منگل کی رات کو جب نواز شریف نے اتحادی حکومت کو سابق فوجی جنرل کی پاکستان واپسی کے لیے حکومت کو ان کو سہولت فراہم کرنے کی ہدایت دی تو سوشل میڈیا صارفین کے لیے یہ باعث حیرت بات بن گئی۔
لندن سے اپنی ایک ٹویٹ میں سابق وزیر اعظم نے لکھا ’میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں۔ نہیں چاہتا کہ اپنے پیاروں کے بارے میں جو صدمے مجھے سہنا پڑے وہ کسی اور کو بھی سہنا پڑیں۔‘
سابق وزیراعظم نے مزید لکھا کہ ’ان کی صحت کے لیے اللہ تعالٰی سے دعاگو ہوں۔ وہ واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔‘
سابق وزیراعظم کے اس بیان پر کم سے کم پاکستانی سوشل میڈیا صارفین میں ایک واضح تقسیم دیکھنے میں آئی۔
کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ سابق فوجی آمر نے آئین توڑ کر غداری کا ارتکاب کیا تھا جس پر انہیں معاف نہیں کیا جانا چاہیے اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نواز شریف کا مشرف کو معاف کر دینا ایک احسن قدم ہے۔
محمد تقی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’کسی کتاب میں کوئی ایسا قانون نہیں جو جنرل مشرف کو وطن واپسی سے روک سکے۔ انسانی بنیادوں پر ان کی وطن واپسی کے لیے سہولت فراہم کرنا ایک باوقار چیز ہے۔‘
لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ’بیماری یا موت ان (مشرف) کے آئین اور پاکستانی عوام کے خلاف جرائم کی پردہ پوشی نہیں کر سکتی۔‘
صحافی ایلیا زہرہ نے نواز شریف کی ٹویٹ کو کوٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’مشرف کے جرائم کسی فرد کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے لوگوں کے خلاف تھے۔ نواز شریف یا کسی اور سرکاری حکام کو انہیں معاف کرنے کا حق حاصل نہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما فرحت اللہ بابر نے لکھا کہ ان کے نزدیک ایک طرف تو یہ انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے لیکن ’دوسری طرف یہ قوم کے خلاف جرم کا بھی معاملہ ہے نہ صرف کسی ایک فرد کے خلاف۔‘
انہوں نے مشورہ دیا کہ ’پارلیمان کو ان کی سخت سرزنش کرنے دیں اور انسانی بنیادوں پر واپس آنے دیں۔‘
گزشتہ روز پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے دنیا نیوز کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’ایسی صورتحال میں ادارہ اور اس کی قیادت کا مؤقف ہے کہ پرویز مشرف کو واپس آنا چاہیے۔‘
پاکستانی فوج کے ترجمان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’پرویز مشرف کو فوج اور اس کی قیادت نے پاکستان واپس بلا کر درست اور جرات مندانہ فیصلہ کیا۔‘
ان کے مطابق نواز شریف نے فوج کے اس فیصلے کی حمایت کی کیونکہ ’نواز شریف کے پاس اس فیصلے کی حمایت کے علاوہ کوئی اور دوسرا راستہ نہیں تھا۔‘
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری ماضی میں پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے رکن بھی رہے ہیں۔ انہوں نے سابق فوجی آمر کے مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا ’پرویز مشرف کو غدار قرار دینے والوں کی میڈیا پر شکلیں دیکھیں تو حیرانگی ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مشرف کے ناقدین کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھا ’ان منافقوں پر جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو کا قول پورا صحیح اترتا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر کچھ صارفین ایسے بھی تھے جنہوں نے نواز شریف کے مشرف کے حوالے سے بیان پر طنز و تنقید کے نشتر برسائے۔
صحافی نوشین یوسف نے لکھا ’آئین سے دوستی ختم ہوگئی۔ مشرف میرے نئے دوست ہیں۔‘
صحافی مشرف زیدی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ٹویٹ کو قوٹ کرتے ہوئے لکھا ’تمام نونی دوست ٹینکوں کے نیچے سے باہر آجائیں۔‘
واضح رہے گذشتہ روز اپنے انٹرویو میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ مشرف کی واپسی کا فیصلہ ان کے خاندان اور ڈاکٹروں نے کرنا ہے۔ تاہم ان کے خاندان کی طرف سے اس حوالے سے اب تک کچھ کہا نہیں گیا ہے۔

شیئر: