Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرویز مشرف کی واپسی: بختاور بھٹو اور فضہ گیلانی آمنے سامنے

بختاور بھٹو زرداری نے فضہ گیلانی کے خیالات کو ’بے حسی‘ پر مبنی قرار دیا (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کے سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کی طبیعت شدید خراب ہونے پر ان کی ممکنہ وطن واپسی سے متعلق متضاد آرا سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
جمعرات کو سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی بیٹی فضہ گیلانی کی پرویز مشرف سے متعلق ایک ٹویٹ کے جواب میں ان کی رائے کو ’انتہائی بے حس‘ قرار دیا۔
فضہ بتول گیلانی نے بدھ کو کی گئی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’جب آپ خود کو تکلیف پہنچانے والوں کو معاف کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو ایسا کر کے آپ ان کی طاقت ختم کردیتے ہیں۔‘
اپنی ٹویٹ کے اختتام پر انہوں نے ’معافی بہادری کی علامت ہے‘ لکھا تو اپنے والد یوسف رضا گیلانی کا اکاؤنٹ بھی مینشن کیا۔
اس ٹویٹ کو اپنے تبصرے کے ساتھ ری ٹویٹ کرتے ہوئے بختاور بھٹو زرداری نے لکھا کہ ’یہ معافی یا بہادری کا موقع نہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے اہل خانہ ایسا محسوس کرتے ہوں لیکن شہید بے نظیر بھٹو کی بیٹی ہونے کے ناتے خصوصاً میری والدہ کے قتل میں ان (پرویز مشرف) کے براہ راست ملوث ہونے پر میں ایسا محسوس نہیں کرتی۔‘
بختاور بھٹو زرداری اور فضہ بتول گیلانی میں ہونے والی گفتگو اگرچہ پیپلز پارٹی کی اعلٰی قیادت اور ان کے گھروں میں متضاد آرا کی موجودگی کی علامت ہے تاہم یہ اس نوعیت کا پہلا مکالمہ نہیں۔
گذشتہ چند روز سے ’پرویز مشرف کو وطن واپس آنے دیا جائے، ان کے خلاف عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے یا آئین توڑنے اور فوجی سربراہ ہوتے ہوئے ملکی اقتدار پر قبضہ کرنے کی پاداش میں ان سے ویسا ہی سلوک کیا جائے‘ کے نکات سوشل ٹائم لائنز پر خاصے نمایاں رہے ہیں۔
سینیٹ آف پاکستان کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پرویز مشرف نے انہیں جیل میں ڈالا، رہا ہو کر وزیراعظم بنے تو حلف بھی پرویز مشرف نے لیا۔ میں نے اسی وقت انہیں معاف کردیا تھا۔‘
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنی تقریر کے دوران پرویز مشرف کی آئین شکنی اور اپنے حلف سے بدعہدی کا ذکر کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’اگر پرویز مشرف سے جرائم کا نہیں پوچھنا اور وی آئی پی پروٹوکول دینا ہے تو پھر یہ کام کریں کہ عدالتوں کو بند کردیں، جیلیں کھول دیں، آئین کو لپیٹ دیں۔‘
 
پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اپنی تقریر میں اتفاق کیا کہ پرویز مشرف نے متعدد مظالم کیے لیکن اگر ان کی صحت ٹھیک نہیں اور وہ وطن آنا چاہیں تو انہیں آنے دیا جائے۔
منگل ہی کے روز پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پرویز مشرف کی صحت بہت خراب ہے۔ لیڈرشپ کا موقف ہے کہ مشرف صاحب کو واپس آجانا چاہیے۔‘
’مشرف صاحب کی واپسی کا فیصلہ ان کی فیملی نے کرنا ہے۔ ان کی فیملی کے جواب کے بعد انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔‘
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے بھی منگل کو ایک ٹویٹ میں پرویز مشرف پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی وطن واپسی کی حمایت کی اور اپنی پارٹی واتحادیوں کی حکومت سے ’انہیں سہولت فراہم کرنے‘ کی ہدایت کی تھی۔

12 اکتوبر 1999 کو آرمی چیف ہوتے ہوئے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے والے پرویز مشرف اگست 2008 تک اقتدار میں رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے پہلے ملک میں مارشل لا جب کہ دوسری مرتبہ 2007 میں آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی۔
نو برس اقتدار میں رہنے کے بعد پرویز مشرف پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہوئے تو بیرون ملک چلے گئے تھے۔

شیئر: