Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اگر ریاست چاہے تو پرویز مشرف کے خلاف کن مقدمات میں کارروائی ہو سکتی ہے؟

خصوصی عدالت نے ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو شدید علالت کے باعث دبئی سے پاکستان لانے کے حوالے سے ان کے خاندان اور پاکستان کی فوج کے درمیان مشاورت کی جا رہی ہے۔ 
پاکستان میں ان کے خلاف مقدمات بھی ہیں جن میں قانونی کارروائی نہ کرنے کی صورت میں حکومت کو اپنے ہی حامیوں اور مخالفین کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پرویز مشرف کے خلاف کن مقدمات میں کارروائی کرسکتی ہے یا حکومت کی جانب سے کن کیسوں میں کارروائی کی امید کی جا رہی ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف سب سے بڑا کیس آئین شکنی سے متعلق ہے۔

آئین شکنی کیس کیا ہے؟ 

تین نومبر 2007 کے پرویز مشرف کے اقدام کے خلاف خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر 17 دسمبر 2019 کو سزائے موت سنائی تھی۔
تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو گرفتار کرکے سزائے موت پر عمل درآمد کرائیں۔‘
اس فیصلے پر پاکستان کی فوج کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا تاہم بعد میں پی ٹی آئی حکومت نے بھی اس فیصلے کے خلاف اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چھ سال سے زائد عرصہ چلا (فوٹو: سوشل میڈیا)

نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کی تھی جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے ججز کو گھروں میں نظر بند کر دیا تھا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔ وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے 16 نومبر 2013 کو رپورٹ جمع کرائی۔
وزارت قانون کی مشاورت کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا قرار پایا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چھ سال سے زائد عرصہ چلا۔ وہ صرف ایک بار عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔ 
ان کی غیر موجودگی میں عدالت نے سزا سنائی اور انھیں واپس لانے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس سیٹھ وقار احمد نے اسی فیصلے میں اختلافی نوٹ میں بیرون ملک وفات کی صورت میں پرویز مشرف کی نعش کو ڈی چوک پر لٹکانے کا حکم دیا تھا۔ 
اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو رجسٹرار کی جانب سے درخواست اعتراض لگا کر واپس کر دی گئی۔ 
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے اس اپیل پر فیصلہ دیتے  ہوئے پرویز مشرف کو سزا سنانے والی عدالت کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دے ختم کر دیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کو سنائی گئی سزا بھی کالعدم قرار دے دی تھی۔ 
ممتاز قانون دان کامران مرتضیٰ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پرویز مشرف کو پاکستان واپس لا کر انہیں صحت کی بنیاد پر گرفتار نہ کرنے اور مقدمات کو آگے نہ چلانے کا فیصلہ کرکے نرم دلی کا ثبوت دے کر واہ واہ سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

وزارت قانون کی مشاورت کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

کامران مرتضیٰ کے مطابق پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا قانونی طور پر اپنی جگہ پر موجود ہے۔ ’کیونکہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف صرف اور صرف سپریم کورٹ میں ہی اپیل دائر کی جا سکتی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ میں چیلنج ہو چکا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آئین شکنی کا کیس نہ بھی چلے تو قانونی طور پر لال مسجد کیس میں ان کی گرفتاری بنتی ہے کیونکہ اس حوالے سے اسلام آباد کی عدالت کا حکم موجود ہے۔‘
کامران مرتضیٰ کے بقول ’اگر پھر بھی حکومت گرفتار نہیں کرنا چاہتی تو جس قانون کے تحت نواز شریف کو باہر بھیجا گیا اسی قانون کے تحت پرویز مشرف کو رعایت دی جائے گی۔ ایسی دفعات تعزیرات پاکستان میں موجود ہیں۔‘
سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا سمجھتے ہیں کہ جب پرویز مشرف کو واپس لایا جا رہا ہے تو انھیں مکمل تحفظ کی یقین دہانی کے بعد ہی لایا جائے گا۔ ’حکومت اگر چاہے تو صدر مملکت کے ذریعے ان کے خلاف تمام مقدمات واپس لے سکتی ہے جبکہ آئین شکنی کیس اور اکبر بگٹی کیس میں تو ان کے خلاف مقدمات ختم ہو چکے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب ایک ہائی کورٹ فیصلہ کرے اور اس کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں ہو تو جب تک سپریم کورٹ فیصلہ نہ کرے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہتا ہے۔‘

لال مسجد کیس

جولائی 2007 میں پرویز مشرف حکومت نے اسلام آباد میں واقع لال مسجد کی انتظامیہ کی شہر میں بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو ’ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کوشش‘ قرار دے کر ان کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف اس وقت قانونی طور فعال مقدمہ لال مسجد کیس ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس آپریشن کے نتیجے میں لال مسجد سے متصل جامع حفصہ کو منہدم کر دیا گیا۔ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز برقعے میں فرار ہونے کی کوشش میں ناکام ہوئے۔
سینکڑوں طلبا و طالبات ہلاک اور لاپتہ ہوئے جبکہ غازی برادران کی والدہ اور غازی عبدالرشید بھی ہلاک ہوئے۔  
سپریم کورٹ نے اس حوالے سے از خود نوٹس اور شہدا فاؤنڈیشن کی درخواست پر جہاں دیگر احکامات دیے وہیں اس آپریشن میں مارے جانے والے افراد کے قتل کا مقدمہ ذمہ داران کے خلاف درج کرنے کا حکم بھی دیا۔
اس تناظر میں شہدا فاؤنڈیشن نے پرویز مشرف کے خلاف غازی عبدالرشید قتل کیس کا مقدمہ درج کرایا۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف اس وقت قانونی طور فعال مقدمہ لال مسجد کیس ہے جو غازی عبد الرشید قتل کیس کے تحت اسلام آباد کی مقامی عدالت میں زیر سماعت تھا۔
ان کے بیرون ملک جانے کے بعد کیس کی سماعت نہیں ہو سکی جبکہ شہداء فاؤنڈیشن کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ بھی وفات پا چکے ہیں۔ 
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں غازی عبد الرشید کے صاحبزادے ہارون الرشید غازی نے بتایا کہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے یہ کیس ایک عرصے سے داخل دفتر کر رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب اگر پرویز مشرف واپس آتے ہیں تو ہم نیا وکیل کرکے اس مقدمے کو فعال کرنے کی کوشش کریں گے۔‘

بے نظیر قتل کیس  

دسمبر 2007 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو ایک دہشت گرد حملہ میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
ایف آئی اے نے دیگر ملزمان کے ساتھ ساتھ اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو بھی مقدمے میں نامزد کیا تھا۔

سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو ایک دہشت گرد حملہ میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہلاک ہو گئی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)

2017 میں راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے گرفتار ملزمان کو بری کردیا تھا۔
عدالت نے سابق سٹی پولیس افسر (سی پی او) سعود عزیز اور سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) خرم شہزاد کو مجرم قرار دے کر 17، 17 سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا تھا۔ 
مقدمے میں پیش نہ ہونے پر 2019 میں انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی خصوصی عدالت نمبر ایک کے جج شوکت کمال ڈار نے پرویز مشرف کی جائیداد ضبط کرنے کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق صدرکے نام پر موجود منقولہ و غیر منقولہ تمام جائیداد بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم دیا۔ 
عدالت نے سابق صدرپرویز مشرف کے بینک اکاؤنٹس اور نام پر موجود گاڑیاں بھی ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے عدم حاضری پر سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے کر دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے تھے۔ 
پیپلز پارٹی نے اس فیصلے پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ ملزمان کی جانب سے بھی اس فیصلے کو اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ 

کریک ڈاؤن کے وقت نواب اکبر خان بگٹی نے ایک غار میں پناہ لے رکھی تھی (فوٹو: گیٹی امیجز)

اکبر بگٹی قتل کیس

بلوچستان کے اہم رہنما نواب اکبر خان بگٹی 26 اگست 2006 کو کوہلو میں اس وقت کے صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کے حکم پر کیے جانے والے ایک کریک ڈاؤن میں ہلاک ہوگئے تھے۔
کریک ڈاؤن کے وقت نواب اکبر خان بگٹی نے ایک غار میں پناہ لے رکھی تھی۔
ان کے بیٹے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے پرویز مشرف، سابق وزیرِاعظم شوکت عزیز، آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور دیگر اعلیٰ حکام کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ 
چھ سال بعد عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اکبر بگٹی کے بیٹے نوابزادہ جمیل بگٹی کی، والد کی قبر کشائی کی درخواست مسترد کردی تھی۔
عدالت نے پرویز مشرف، اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور صوبائی وزیر داخلہ میر شعیب نوشیروانی کو کیس سے بری کردیا تھا۔  

شیئر: