Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان بس حادثے میں ہلاک 5 طالب علموں کی کہانی

’ڈیئر فیملی! میں اب آفیشلی گریجویٹ ہو چکا ہوں۔ جس پر میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں۔ اپنے والدین اور بڑے بھائی کا مشکور ہوں کہ جس نے میرے لیے اتنا کچھ کیا کہ شکریہ ادا کرنے کے الفاظ بھی نہیں ہیں۔ پیارے بھائی آپ کی کوششیں رنگ لائی ہیں۔ میں اپنے دوستوں اور اساتذہ کی حسین یادیں لے کر جا رہا ہوں جو زندگی بھر میرا سرمایہ رہیں گی۔ یہ پانچ سال کی محنت میں اپنے بھتیجے عمر بریال کے نام کرتا ہوں۔‘
یہ شدت جذبات میں لکھے گئے الفاظ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقے میں مسافر بس حادثے میں جان گنوانے والے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم عتیق خان کے ہیں۔ جو انھوں نے چند روز قبل شریعہ اینڈ لاء میں اپنی ڈگری مکمل ہونے پر فیس بک پر لکھے تھے۔ 
عتیق خان کچلاک کے رہائشی تھے اور ان کی فیس بک پوسٹ سے کسی بھی پسماندہ علاقے کے نوجوان کا اعلیٰ تعلیم کا خواب پورا ہونے کی خوشی جھلک رہی ہے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقے میں مسافر بس کے حادثے میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پانچ طالب علموں سمیت 19 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ دو شدید زخمی ہیں۔ تمام طلبا کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ 
اس حادثے میں ہلاک ہونے والے طالب علموں میں عتیق خان کے علاوہ، محمد نواز، انوار الحق، محمد ادریس اور علاوالدین شامل ہیں جبکہ اورنگزیب خان اور سادات خان شدید زخمی ہیں۔ 
عید قربان اور ڈگریوں کی تکمیل کی خوشیاں اپنے خاندانوں کے ساتھ منانے کے لیے اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم سات دوستوں نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات راولپنڈی سے کوئٹہ کے سفر کا آغاز کیا۔ ایک ساتھ بیٹھے تین دوستوں عتیق خان، اورنگزیب خان اور انوارالحق نے تصویر بنائی اور واٹس ایپ پر سٹیٹس ڈالا ’آف ٹو کوئٹہ‘ 

ایک ساتھ بیٹھے تین دوستوں عتیق خان، اورنگزیب خان اور انوارالحق نے تصویر بنائی اور واٹس ایپ پر سٹیٹس ڈالا ’آف ٹو کوئٹہ‘ 

 یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ وہ یوں سفر کر رہے تھے بلکہ ماضی میں بھی وہ اسی طرح سفر کرتے تھے۔ 
ان کے دیگر دوستوں کے بقول یہاں سے جاتے ہوئے سب ایک ساتھ سفر شروع کرتے اور کوئٹہ پہنچ کر سب اپنے اپنے آبائی علاقوں کو روانہ ہو جاتے اور واپس پر بھی سب ایک ساتھ کوئٹہ پہنچتے اور سفر سے لطف اندوز ہوتے اور اپنے اپنے قیام کی روداد ایک دوسرے کو سناتے ہوئے واپس آتے۔ 
اب کی بار عتیق خان، محمد نواز اور علاؤالدین کے لیے سفر منفرد حیثیت رکھتا تھا کہ وہ وہ اپنی ڈگریاں مکمل کرنے کے بعد اپنے آبائی علاقوں کو جا رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں کامیابی کی چمک نمایاں اور تابناک مستقبل کے سہانے سپنے تھے۔ کوئی اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر والوں سے صلاح مشورہ کرنے کا سوچ رہا تھا اور کوئی اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارہ بن کر ان کی مالی مشکلات کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ کہ اچانک یہ حادثہ ان سارے خوابوں اور منصوبہ بندیوں کو بہا کر لے گیا۔ 
عتیق خان اور علاوالدین بھی شریعہ اینڈ لا میں اپنی ڈگریاں مکمل کی تھیں تو دبلے پتلے اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ضلع ژوب کے رہائشی محمد نواز معاشیات میں اپنا آخری امتحان دے کر فارغ ہوئے تھے جبکہ انوارالحق بھی بی ایس اکنامکس کے پانچویں سمیسٹر میں تھے جبکہ محمد ادریس سوشیالوجی میں بی ایس کر رہے تھے۔
اپنے طالب علموں ساتھیوں کی اندوہناک حادثے میں وفات پر اسلامی یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ شدید غم کی کیفیت میں ہیں۔ 

حادثے میں ہلاک ہونے والے طالب علم عتیق خان کچلاک کے رہائشی تھے۔ (فوٹو: فیس بک)

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان طالب علموں کے استاد شبیر اچکزئی نے کہا کہ ’اپنے شاگردوں اور بھائیوں جیسے دوستوں کی بے وقت اور حادثاتی موت نے اتنا بے بس کر دیا ہے کہ میں ان کے بارے میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن دل اس قدر رنجیدہ ہے کہ کچھ بھی کہہ نہیں سکتا۔‘
’بس اس بات کا افسوس ہے کہ بلوچستان جو پہلے ہی بہت سی آفات اور حادثات کا شکار ہے وہ ایک بار پھر ذہین اور زرخیز دماغوں سے محروم ہو گیا ہے۔‘
طالب علم عبدالقیوم نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ میرے دل کے بہت ہی قریب دوست تھے۔ یہ وہ دوست تھے جو سردی گرمی اور کسی بھی قسم کی تکلیف اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر اپنے دوستوں کے کام آتے تھے اور ہر مشکل میں حاضر ہوتے تھے۔‘
’صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان سے نئے آنے والے طالب علموں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے تھے۔ خوش اخلاق اور خوش مزاج دوستوں کی ناگہانی وفات نے ہم سب کو اور ہمارے اساتذہ کو دلی صدمہ پہنچایا ہے۔‘

انوارالحق بی ایس اکنامکس کے پانچویں سیمسٹر کے طالب علم تھے (فوٹو: فیس بک)

ایک اور طالب علم زین العابدین نے اپنے ساتھیوں کی وفات پر کہا کہ ’ وہ ایک فعال، متحرک اور انتظامی امور پر بے پناہ گرفت رکھنے والے نوجوان تھے۔ تمام دوست فکری اور شعوری طور پر اچھی ذہنیت رکھنے والے نوجوان تھے۔ ان کی شہادت سے بلوچستان بالعموم اور ان کے خلاندانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔‘
طالب علم عبدالقیوم نے اس حادثے کی وجہ بلوچستان میں سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’بلوچستان کی سڑکوں پر آئے روز حادثات ہوتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سڑکیں پرانی ہیں اور ان پر بڑی گاڑیاں چلا دی گئی ہیں۔
’ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان سے ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ سے پنجاب اور کوئٹہ سے کراچی جانے والی شاہراہوں کو دو رویہ کیا جائے ورنہ ان حادثات کا سلسلہ نہیں رکے گا اور ہم بھی آئے روز صرف افسوس ہی کرتے رہیں گے۔‘

شیئر: