Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اس شدت کی قیامت خیز بارش نہیں دیکھی‘ قلعہ سیف اللہ میں تباہی

’گزشتہ شب آنے والا سیلابی ریلے نے ہمارے پورے دیہات کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ کوئی ایسا گھر نہیں جسے نقصان نہ ہوا ہو، پانی سب کچھ بہا لے گیا، لوگوں کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں بچا۔ خواتین اور بچے پچھلے 24 گھنٹوں سے بھوکے پیاسے ہیں۔‘
یہ الفاظ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے خسنوب جلال زئی کے رہائشی محمد شاہ کے ہیں جن کے دیہات میں منگل کی شب آنے والے سیلابی ریلے نے تباہی مچائی ہے۔
محمد شاہ نے بتایا کہ چار فٹ اونچا سیلابی ریلا جب آبادی میں داخل ہوا تو ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی، لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بال بچوں کے ہمراہ مٹی کے اونچے ٹیلوں پر چڑھ گئے اور رات بھر شدید بارش میں وہیں رہے۔
 ’تیز ریلے میں کئی خواتین اور بچے بہہ گئے جن میں سے باقیوں کو تو بچا لیا لیکن خواتین اور بچوں سمیت چار افراد کی لاشیں صبح  ملیں۔ اتنی شدت کی قیامت خیز طوفانی بارش اور سیلاب ہم نے  گزشتہ دس برس میں نہیں دیکھا۔‘
حکام کے مطابق قلعہ سیف اللہ سے تقریباً 20 کلو میٹر دور خنسوب جلال زئی میں سیلاب کے باعث ساڑھے چار ہزار خاندان یعنی کم از کم 20 ہزار افراد بے گھر ہوئے ہیں.
اسسٹنٹ کمشنر قلعہ سیف اللہ لیاقت کاکڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ خسنوب جلالزئی میں چار افراد سیلاب میں بہہ کر ہلاک ہو گئے ہیں.
انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں 90 فیصد گھر مکمل یا جزوی تباہ ہوچکے ہیں اور علاقے کے لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے جبکہ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے خیمہ بستی قائم کی گئی ہے۔
’علاقے میں کاشت کی گئیں فصلیں بھی مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں۔ زمینداروں کے ٹیوب ویلز، سولر پینلز اور زرعی مشنری کو نقصان پہنچا ہے۔‘
رہائشی محمد شاہ نے بتایا کہ سیلابی پانی کا ابھی تک مکمل انخلاء نہیں ہوا جس کی وجہ سے علاقہ دلدلی ہوگیا ہے اور گاڑیاں مٹی میں پھنس رہی ہیں، دور دراز کے کئی علاقوں میں اب تک امداد نہیں پہنچی۔

متاثرین کو بروقت امداد نہ ملنے پر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج ہوا۔ فوٹو: اردو نیوز

مقامی رضا کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی کلومیٹر پیدل جا کرمتاثرین کو نکالا ہے تاہم خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ اب بھی کھلے آسمان تلے بیٹھے امداد کے منتظر ہیں۔
کوئٹہ میں رہائش پذیر قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے امدادی سرگرمیوں میں تاخیر کے خلاف پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور حکومت سے متاثرین کی فوری مدد کرنے کا مطالبہ کیا ۔
اسسٹنٹ کمشنر قلعہ سیف اللہ کا کہنا ہے کہ علاقے میں خوراک کی قلت ہے۔ متاثرین کو خشک راشن فراہم کیا جا رہا ہے اور صوبائی حکومت سے مزید امداد طلب کر لی گئی ہے۔
حکام کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران بارش کے جمع شدہ پانی اور سیلابی ریلوں میں ڈوبنے سے مزید 16 افراد ہلاک  ہوچکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس طرح گزشتہ تین دنوں کے دوران ہلاک افراد کی تعداد 33 ہوگئی ہے جبکہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران  پری مون سون اور مون سون بارشوں کے باعث پیش آنے والے مختلف حادثات میں اب تک 48 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے نصیر احمد ناصر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے 45 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ لاکھوں افراد بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طویل عرصے بعد بلوچستان میں اس شدت کی بارشیں ہوئی ہیں جن سے صرف جانی نقصانات ہی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر مالی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ مال مویشی، زراعت، تیار فصلوں اور لوگوں کی املاک کا ضیاع ہوا ہے۔

حالیہ بارشوں میں بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں حالیہ بارشوں سے سب سے زیادہ کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب اور کوہلو کے اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔
’کوئٹہ میں سیلابی ریلوں سے زیادہ تر اموات ان علاقوں میں رپورٹ ہوئیں جہاں لوگوں نے برساتی نالوں پر قبضہ کرکے گھر بنائے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم متعلقہ حکام کو قانونی کارروائی کے لیے لکھیں گے۔‘
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے بدھ کو کہا تھا کہ حالیہ مون سون کی بارشوں سے پاکستان میں سب سے زیادہ بلوچستان متاثر ہوا ہے جہاں اس مرتبہ مون سون کی بارشیں معمول سے 274 فیصد زیادہ ہیں۔
پشین میں سیلابی ریلہ
ڈپٹی کمشنر پشین ظفر علی کے مطابق پشین میں سیلابی ریلے میں ایک گاڑی بہہ گئی جس میں موجود دو بچوں اور ایک خاتون سمیت تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ پشین کے علاقے کلی اورکان میں پانی سے ایک اور بچی کی لاش ملی ہے جس کے بعد ضلع میں مرنے والوں کی تعداد چار ہو گئی۔
موسلا دھار بارش کے بعد سیلابی ریلے پشین کے علاقے کلی ڈب خانزئی، ملک یار اور منزکی میں داخل ہو گئے ہیں۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نصیر احمد ناصر کے مطابق پشین میں مرغہ ملکیار ڈیم ٹوٹنے سے آبادی زیر آب آ گئی ہے تاہم پانی آنے سے پہلے مقامی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
سیلابی ریلوں سے خود کو بچانے کے لیے رات گئے مساجد میں اعلانات کرائے گئے جس کے بعد لوگوں نے خواتین اور بچوں سمیت اونچے مقامات پر پناہ لی۔ ضلعی انتظامیہ اور پی ڈی ایم اے کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی ہیں۔

شیئر: