Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشی بحران کے شکار سری لنکا میں صحت کا نظام بھی ’خطرے میں‘

پیٹرول کی قلت کے باعث مریض اور ڈاکٹر دونوں علاج کے لیے سفر کرنے سے قاصر ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سری لنکا کے سب سے بڑے ہسپتال کی پوری وارڈ ہی تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہے اور تقریباً خالی ہے۔ یہاں موجود کچھ مریضوں کا علاج ہی نہیں کیا گیا اور وہ ابھی بھی درد میں مبتلا ہیں، جبکہ ڈاکٹر اپنی نوکریوں پر آنے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق معاشی بحران نے ایک آزاد اور ہمہ گیر صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو شدید دھچکا پہنچایا ہے جو صرف چند ماہ قبل تک پڑوسی ممالک کے لیے حسد کا باعث تھا۔
شوگر اور افشار خون کے مرض میں مبتلا، جس کی وجہ سے ان کے جوڑوں میں سوچن ہو گئی ہے، تھریسا میری کو علاج کے لیے دارالحکومت کولمبو میں موجود نیشنل ہاسپٹل آف سری لنکا آنا پڑا۔
اپنے سفر کے آخری مرحلے میں سواری نہ ملنے کی وجہ سے انہیں پانچ کلومیٹر تک لنگڑا کر آنا پڑا۔
تھریسا میری کو چار دن بعد ہی ہسپتال سے ڈسچارچ کر دیا گیا جبکہ ان کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا، کیونکہ ڈسپنسری میں سبسڈی والی درد کش ادویات ختم ہو چکی تھیں۔
70 سالہ خاتون نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ڈاکٹروں نے مجھے پرائیوٹ فارمیسی سے ادویات خریدنے کو کہا لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘
’میرے گھٹنے ابھی تک سوجے ہوئے ہیں۔ میرے پاس کولمبو میں کوئی گھر نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کب تک چلنا ہے۔‘

ڈاکٹر وسان رتناسنگھم کے مطابق ’کچھ طبی عملہ ڈبل شفٹوں میں کام کر رہا ہے کیونکہ دوسرے افراد ڈیوٹی پر نہیں آ رہے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

نیشنل ہسپتال عام طور پر ملک کے تمام افراد کی خصوصی علاج کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، لیکن اب اس کا عملہ کم ہو گیا ہے اور اس کے 34 سو بستروں میں سے بہت سے غیر استعمال شدہ پڑے ہیں۔
سرجری کے آلات اور جان بچانے والی ادویات کی سپلائی تقریباً ختم ہو چکی ہے جبکہ پیٹرول کی قلت کے باعث مریض اور ڈاکٹر دونوں علاج کے لیے سفر کرنے سے قاصر ہیں۔
سرکاری میڈیکل آفیسرز ایسوسی ایشن کے رکن ڈاکٹر وسان رتناسنگھم کے مطابق ’سرجری کے لیے مقررہ وقت پر مریض رپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔‘
’کچھ طبی عملہ ڈبل شفٹوں میں کام کر رہا ہے کیونکہ دوسرے افراد ڈیوٹی پر نہیں آ رہے ہیں۔ ان کے پاس گاڑیاں ہیں لیکن پیٹرول نہیں ہے۔‘
سری لنکا اپنی ضروریات کا بقیہ حصہ تیار کرنے کے لیے خام مال کے ساتھ ادویات اور طبی آلات کا 85 فیصد درآمد کرتا ہے۔
لیکن ملک اب دیوالیہ ہو چکا ہے اور غیرملکی کرنسی کی کمی نے اسے معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے درکار پیٹرول اور فارماسیوٹیکلز کو بیماروں کے علاج کے لیے درکار دواسازی حاصل کرنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔
ادویات کی قلت کے حوالے سے ایک فارمیسی کے مالک کا کہنا تھا کہ ’عام درد کش ادویات، اینٹی بائیوٹکس اور بچوں کی ادویات کی سپلائی بہت کم ہے۔ گزشتہ تین مہینوں میں دوسری ادویات چار گنا مہنگی ہو چکی ہیں۔‘
دوسری جانب وزارت صحت کے حکام نے سری لنکا کی صحت عامہ کی خدمات کی موجودہ حالت کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا جس پر 90 فیصد آبادی کا انحصار ہے۔

ایک فارمیسی کے مالک کا کہنا تھا کہ ’عام درد کش ادویات، اینٹی بائیٹکس اور بچوں کی ادویات کی سپلائی بہت کم ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ جان لیوا ہنگامی حالات کو ترجیح دینے کے لیے معمول کی سرجریوں کو کم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور کم موثر متبادل ادویات استعمال کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر ہانا سنگر ہامڈی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’سری لنکا کا ایک وقت میں صحت کی دیکھ بھال کا مضبوط نظام اب خطرے میں ہے۔ سب سے زیادہ کمزور افراد اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔‘

شیئر: