Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس: سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا ہے؟

عدالت نے کہا کہ صوبے میں آئین کے مطابق گورننس کو سبوتاژ کیا گیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)
سپریم کورٹ نے وزارت اعلی پنجاب کے انتخابات سے متعلق ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پرویز الہی کی درخواست منظور کر لی ہے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 12 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہی کو وزارت اعلی کے انتخابات میں کامیاب قرار دیا ہے اور چیف سیکریٹری پنجاب کو ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔
تین رکنی بینچ نے اپنے  فیصلے میں گورنر پنجاب کو منگل کی رات ساڑھے 11 بجے تک پرویز الہی سے حلف لینے کے احکمات دیتے ہوئے کہا اگر گورنر عدم دستیابی یا حلف لینے کے رضا مند نہیں تو صدر پاکستان کا مقرر کردہ نمائندہ وزیر اعلی سے حلف لے سکتے ہیں۔
تین رکنی بینچ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ کے حلف لینے کی کارروائی غیر قانونی اور ان کا اس دوران کابینہ سے حلف حلف لینے کا قدام بھی غیر قانونی ہے۔
عدالت نے حمزہ شہباز کو فوری طور پر وزیر اعلی کا آفس چھوڑنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان کی مقررہ کردہ تمام کابینہ ارکان بھی اپنے عہدے سے سبکدوش قرار دے دیے گئے ہیں۔
تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ کے تمام آئینی اور قانونی احکمات کو تحفظ حاصل رہے گا تاہم نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب اگر مناسب سمجھیں تو ان کے فیصلوں میں تبدیلی یا واپس لے سکتے ہیں۔
عدالت نے فوری طور فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے فیصلے کی کاپی گورنر پنجاب، چیف سیکرٹری اور ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کو بھجوانے کی ہدایت کی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ڈپٹی سپیکر آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح کی اور 10 ووٹ مسترد قرار دیے۔

سپریم کورٹ نے چوہدری پرویز الہی کو وزارت اعلی کے انتخابات میں کامیاب قرار دے دیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

 عدالت نے کہا کہ کیس میں فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کے لیے استدعا کی گئی تاہم اس کے لیے ٹھوس وجوہات نہیں بتائی گئیں۔ کیس میں بنیادی سوال آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلے کے عملدرآمد اور بنیادی حقوق کا تھا۔
عدالت نے کہا کہ صوبے میں آئین کے مطابق گورننس کو سبوتاژ کیا گیا۔ پنجاب کے عوام کے بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی یے۔
مختصر تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے 2015 کے جسٹس عظمت سعید کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ مذکورہ کیس سے متعلق دلائل اس کیس میں قابل قبول نہیں۔
جسٹس عظمت سعید کے تحریر کردہ فیصلے میں پارٹی سربراہ سے متعلق پاسنگ ریمارکس تھے ان کے فیصلے میں پارٹی سربراہ سے متعلق ریمارکس آئین کے الفاط سے مطابقت نہیں رکھتے۔

شیئر: