Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ لینے کا الزام ثابت

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ’پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈز حاصل کیے۔ الیکشن کمیشن سے 16 ایسے اکاؤنٹس چھپائے جو جماعت کی اعلٰی قیادت چلا رہی تھی۔ عمران خان کے بیان حلفی میں غلط بیانی کی گئی ہے۔‘  
منگل کو الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو فنڈز ضبط کرنے کے لیے شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید قانونی کارروائی کے لیے کیس وفاقی حکومت کو بھیج دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی ممنوعہ فارن فنڈنگ کے حوالے سے تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔ 70 صفحات پر مبنی فیصلہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مشتفقہ طور پر تحریر کیا ہے۔  
تحریری فیصلے میں ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے تحریک انصاف کے اکبر ایس بابرکی جانب سے اٹھائے گئے قانونی نکات، بیرون ملک سے ملنے والے عطیات، کمپنیوں، افراد اور پی ٹی آئی کی جانب سے چھپائے گئے اکاؤنٹس کی تفصیلات شامل ہیں۔  
الیکشن کمیشن نے فیصلے کے آغاز میں کیس کے متعلق حقائق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’دسمبر 2014 میں اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی۔ اسی دوران سپریم کورٹ میں حنیف عباسی عمران خان کے خلاف اسی نوعیت کا مقدمہ لے کر پہنچے۔ سپریم کورٹ نے فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ میں قانون فرق واضح کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ تحریک انصاف سمیت سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی سکروٹنی کی جائے۔‘
فیصلے کے مطابق 2015 سے 2018 کے دوران متعدد سماعتوں کے بعد الیکشن کمیشن نے محسوس کیا کہ اس کے لیے ایک سکروٹنی کمیٹی کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن نے 2018 میں سکروٹنی کمیٹی تشکیل دی۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے میں اپنے ٹی او آرز تشکیل دیے جن میں واضح تھا کہ کمیٹی ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے سکروٹنی کرے گی۔ کمیٹی نے چار جنوری 2022 کو اپنی حتمی رپورٹ کمیشن کے سامنے پیش کی۔

فیصلے کے مطابق ’عمران خان کے بیان حلفی میں غلط بیانی کی گئی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

کمیٹی کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد فریقین کے وکلا اور تکنیکی ماہرین کی جانب سے الیکشن کمیشن کے سامنے دلائل دیے گئے۔ تحریک انصاف کے وکلاء اور تکنیکی ماہرین کا موقف تھا کہ تحریک انصاف نے جن کمپنیوں سے فنڈنگ لی وہ ممنوعہ اور فان فنڈنگ کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اس حوالے سے آڈٹ فرم کا سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 17 کا حوالہ دیا ہے جس کے تحت آئین و قانون کی حدود قیود میں رہتے ہوئے ہر فرد کو سیاسی جماعت اور یونین بنانے کی اجازت ہے۔ سرکاری ملازمین کے علاوہ ہر فرد سیاسی جماعت بنا سکتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت کوئی ایسا کام کرتی ہے جو پاکستان کی خود مختاری سالمیت اور وقار کے خلاف ہے تو وفاقی حکومت 15 دن کے اندر اندر ڈیکلریشن سپریم کورٹ کو بھیجے گی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوگا۔  
سیاسی جماعتوں کے حوالے سے قانون کے آرٹیکل چھ کے تحت تمام سیاسی جماعتیں اپنے اکاؤنٹس کے حوالے سے جواب دہ ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن نے قانون کے تحت کسی سیاسی جماعت کی فنڈنگ کو ممنوعہ قرار دے دیا تو اس حوالے سے پارٹی کو نوٹس جاری کیا جائے گا اور فنڈز بحق سرکار ضبط کر لیے جائیں گے۔
ان آئینی اور قانونی حوالوں کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں تحریک انصاف سے 12 سوالات اور پارٹی کی جانب سے دیے گئے جوابات درج کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی ان سوالات کے تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہی ہے۔  
اس کے بعد الیکشن کمیشن نے اوپر بیان کیے گئے آئینی اور قانونی آرٹیکلز کی روشنی میں اپنا فیصلہ تحریر کیا ہے۔  
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی کو ابراج گروپ سمیت غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈنگ موصول ہوئی۔ پی ٹی آئی نے اپنے 16 اکاؤنٹس الیکشن کمیشن سے چھپائے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے الیکشن کمیشن میں مس ڈیکلیریشن جمع کرایا۔عمران خان کے بیان حلفی میں غلط بیانی کی گئی ہے۔‘
الیکشن کمیشن کے متفقہ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی نے امریکہ سے ایل ایل سی سے فنڈنگ لی۔ پی ٹی آئی نے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی کی ہے۔ کمیشن مطمئن ہو گیا ہے کہ مختلف کمپنیوں سے ممنوعہ فنڈنگ لی گئی ہے۔ پی ٹی آئی نے شروع میں 8 اکاؤنٹس کی تصدیق کی۔ پی ٹی آئی نے 34 غیرملکی کمنیوں سے فنڈنگ لی۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی کو ابراج گروپ سمیت غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈنگ موصول ہوئی‘ (فوٹو: اے ایف پی)

تحریری فیصلے کے مطابق ’تحریک انصاف نے دانستہ طور پر ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔ پی ٹی آئی نے دانستہ طور پر متحدہ عرب امارات کی کمپنی برسٹل انجینئرنگ سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔‘
فیصلے میں درج ہے کہ سوئزرلینڈ کی ای پلینٹ ٹرسٹیز کمپنی، برطانیہ کی ایس ایس مارکیٹنگ کمپنی سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔ الیکشن کمیشن کے متفقہ فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی یو ایس اے ایل ایل سی سے حاصل کردہ فنڈنگ بھی ممنوعہ ثابت ہوگئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے فنڈنگ درست ہونے کے سرٹیفکیٹ درست نہیں تھے۔
تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کو ووٹن کرکٹ سے 21 لاکھ 21 ہزار 500 ڈالر فنڈز ملے۔ برسٹل انجینئرنگ سے 49 ہزار 964 ڈالر منتقل ہوئے۔ ای پلینٹ ٹرسٹیز اور ایس ایس مارکیٹنگ کمپنیوں سے پی ٹی آئی کو 1 لاکھ 17 ہزار سے زائد کی فنڈنگ ہوئی۔
فیصلے میں پی ٹی آئی کو برطانیہ سے ملنے والے 7 لاکھ 92 ہزار پاؤنڈز ، پی ٹی آئی کینیڈا سے 35 لاکھ 81 ہزار 186 روپے، آسٹریلین کمپنی انور برادرز سے ملنے والے 6 لاکھ 79 ہزار روپے ممنوعہ قرار دیے گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی نے صرف آٹھ اکاؤنٹس ظاہر کیے تھے جن اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی گئی تھی وہ پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت چلا رہی تھی۔ پی ٹی آئی نے اپنی قیادت کے زیرانتظام چلنے والے مجموعی طور پر 16 اکاؤنٹس چھپائے۔ اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنا پی ٹی آئی کی جانب سے آرٹیکل 17(3) کی خلاف ورزی ہے۔‘
متفقہ فیصلے کے مطابق سال 2008ء سے 2013ء تک عمران خان کے جمع کرائے گئے سرٹیفکیٹ صریحاً غلط ہیں۔ عمران خان کے سرٹیفکیٹ سٹیٹ بینک ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی شق چھ (3) کے زمرے میں آتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پولیٹیکل پارٹیز رولز کی شق 6 کے تحت تحریک انصاف کو فنڈز ضبط کرنے کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کیوں نہ تمام ممنوعہ فنڈز ضبط کر دیے جائیں۔‘ الیکشن کمیشن نے اس معاملے میں مزید قانونی کارروائی کے لیے کیس وفاقی حکومت کو بھیج دیا ہے۔  

شیئر: