Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس، قانون کیا کہتا ہے؟

الیکشن کمیشن نے غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کے لیے مارچ 2018 میں سکروٹنی کمیٹی قائم کی جس کے 95 اجلاس ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
الیکشن کمیشن آف پاکستان آٹھ سال بعد ایک ایسے وقت میں  پی ٹی آئی کی مبینہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کا  فیصلہ آج کو سنانے جا رہا ہے جب تحریک انصاف کی اکثریت رکھنے والی دو صوبائی اسمبلیاں الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کے مطالبے پر مبنی قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔
پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران اور کامیابی کے بعد بھی سابق وزیراعظم عمران خان چیف الیکشن کمشنر پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی وقتاً فوقتاً ان الزامات کو جواب دیا جاتا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والی کاز لسٹ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ آج منگل کی  صبح 10 بجے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے گا۔
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی کی مبینہ غیر ملکی فنڈنگ کیس 14 نومبر 2014 کو الیکشن کمیشن میں دائر کیا تھا۔ ان کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ موصول ہوئی جس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
الیکشن کمیشن میں کیس کی 75 سماعتیں ہوئیں۔ پی ٹی آئی نے 30 بار التوا مانگا، کیس کے ناقابل سماعت ہونے سے متعلق چھ درخواستیں دائر کیں جبکہ کیس کے لیے 9 وکیل تبدیل کیے۔
الیکشن کمیشن نے غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کے لیے مارچ 2018 میں سکروٹنی کمیٹی قائم کی جس کے 95 اجلاس ہوئے۔
سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ چار جنوری کو جاری کی گئی جس کے 8 والیمز خفیہ رکھے گئے جنھیں ای سی پی کی ہدایت پر اکبر ایس بابر کے حوالے کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ کی رقم ظاہر نہیں کی۔ بینک اکاؤنٹس سٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔ پی ٹی آئی نے بینک اکاؤنٹس چھپائے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ موصول ہوئی جس کی تحقیقات ہونی چاہییں (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی کو امریکہ، متحدہ عرب امارات ، برطانیہ ، یورپ ، آسٹریلیا ، کینڈا سے فنڈز موصول ہوئے ۔ الیکشن کمیشن نے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد دلائل مکمل ہونے پر 21 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

الیکشن ایکٹ کے مطابق اگر کسی سیاسی جماعت کو غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ موصول ہو رہی ہے تو اس کے عطیات ضبط ہو جائیں گے۔ جماعت وفاقی حکومت کے ڈکلیریشن اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے  بعد تحلیل ہو جائے گی اس کے علاوہ پارٹی پارلیمنٹ ، صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومت سے باقی مدت کے لیے نااہل ہو جائے گی۔
سیاسی جماعتوں کی تشکیل سے متعلق الیکشن ایکٹ کا سیکشن 200 کہتا ہے کہ سیاسی جماعت  غیر ملکی امداد سے نہ تشکیل پائے گی، نہ منظم ہو گی، نہ قائم ہو گی۔
سیکشن 2004 کے مطابق سیاسی جماعت کو براہ راست یا بلاواسطہ کسی غیر ملکی ذرائع بشمول غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشل کمپنی، فرم ، تجارتی یا پیشہ ور ایسوسی ایشن  یا افراد سے عطیہ ممنوعہ ہو گا۔
ممنوعہ ذرائع سے ملنے  والے عطیہ حکومت ضبط کر لے گی۔ عطیہ کیش، سٹاک، ٹرانسپورٹ، فیول یا دیگر سہولیات کی مد میں ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی ذرائع میں سمندر پار پاکستانی شامل نہیں جو نادرا کا جاری کردہ سمندر پار پاکستانیوں کا شناختی کارڈ رکھتے ہوں۔

رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ کی رقم ظاہر نہیں کی (فوٹو: اے ایف پی)

سیکشن 212 کے مطابق اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس یا کسی اور ذرائع سے حاصل معلومات کے تحت وفاقی حکومت مطمئن ہو کہ سیاسی جماعت کو غیرملکی فنڈنگ حاصل ہے  تو وہ نوٹی فیکشن کے ذریعے اس کا ڈکلیریشن کرے گی۔
اس ڈکلیریشن کے بعد حکومت معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی۔ اگر سپریم کورٹ سیاسی جماعت کے خلاف وفاقی حکومت کے ڈکلیریشن کو برقرار رکھے گی تو وہ سیاسی جماعت تحلیل کر دی جائے گی۔
سیکشن 213 کے تحت تحلیل ہونے والی سیاسی جماعت اگر پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی یا مقامی حکومت کا حصہ ہوئی تو وہ باقی مدت کے لیے نااہل ہو جائے گی۔
الیکشن ایکٹ کا آرٹیکل 17 کہتا ہے کہ ’وفاقی حکومت جہاں قرار دیتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت یا امن عامہ کے برخلاف انداز میں تشکیل دی گئی ہے یا چل رہی ہے تو وفاقی حکومت ایسے ڈکلیریشن کے 15 دن کے اندر معاملہ سپریم کورٹ بھیجی گی اور عدالت عظمٰی کا ایسے ریفرنس پر فیصلہ حتمی ہوگا۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں