Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایمن الظواہری کی ہلاکت: افغان شہریوں کا امریکی ڈرون حملے کے خلاف احتجاج

مظاہرے میں سات افغان صوبوں کے شہری شامل تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان میں سینکڑوں افغان شہریوں نے امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق جمعے کو صوبہ بادغیس میں ہونے والے مظاہرے میں افغان شہریوں نے امریکہ مخالف بینرز اٹھا رکھے تھے۔
ان مظاہروں سے ایک روز قبل طالبان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان کی حکومت کو ’ایمن الظواہری کے کابل میں داخل ہونے اور رہنے کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھیں۔‘
انہوں نے امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ افغان سرزمین پر ایسے حملے دوبارہ نہ ہوں۔
سوشل میڈیا پر زیر گردش تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سات افغان صوبوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے ہیں جن پر ’امریکہ مردہ باد‘، ’جو بائیڈن جھوٹ بولنا بند کرو‘ اور ’امریکہ جھوٹا ہے‘ درج ہیں۔
تین روز قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کابل میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں اس آپریشن کو ’انصاف‘ کی فراہمی کے طور پر سراہا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ یہ اقدام 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر ہونے والے حملوں میں ہلاک ہونے والے کے خاندانوں کے ’دکھوں کا مداوا‘ کرے گا۔
ایک سینیئر امریکی انٹیلی جنس اہلکار کے مطابق ایمن الظواہری جس گھر میں تھے وہ طالبان کے سینیئر رہنما اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے ایک اعلیٰ معاون کی ملکیت تھا۔

ایمن الظواہری اور اسامہ بن لادن نے 9/11 کے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایمن الظواہری اور اسامہ بن لادن نے 9/11 کے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی جن میں عام امریکی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسامہ بن لادن ایک دہائی کی تلاش کے بعد پاکستان میں دو مئی 2011 میں امریکی نیوی سیلز کے آپریشن میں ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے بھی گزشتہ روز ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران بتایا گیا تھا کہ ’القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری پر حملے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔‘
واضح رہے کہ ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت نے سوالات اٹھا دیے ہیں کہ آیا کیا انہیں طالبان نے پناہ دی ہوئی تھی۔
طالبان نے سنہ 2020 کے دوحہ معاہدے میں یقین دہانی کروائی تھی کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہ اپنی سرزمین دوسرے مسلح گروہوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

امریکی صدر نے اپنے خطاب میں اس آپریشن کو ’انصاف‘ کی فراہمی کے طور پر سراہا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم طالبان نے واشنگٹن کو خبردار کیا ہے کہ ’اگر دوبارہ ایسے واقعات ہوئے اور افغان سرزمین کی خلاف ورزی کی گئی تو کسی بھی قسم کے نتائج کی ذمہ داری امریکہ پر ہو گی۔‘

شیئر: