Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرین کے لیے سعودی امداد: تاثر بمقابلہ حقیقت

کنگ سلمان امدادی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ الربیعہ نے پولینڈ کا دورہ کیا تھا۔ (فوٹو: ایس پی اے)
یہ تاثر کہ سعودی عرب جنگ سے متاثرہ ملک یوکرین کی شہریوں کی مدد نہیں کر رہا حقائق کے برعکس ہے۔
عرب نیوز میں شائع مضمون کے مطابق لڑائی کے آغاز کے ساتھ ہی پناہ گزینوں کی مدد اور تنازع کو حل کرنے کے لیے مملکت کا عزم واضح ہے۔
جنگ سے بے گھر ہونے والے یوکرینی شہریوں کے لیے 10 ملین ڈالر کے سعودی امدادی پیکج پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین، عالمی ادارہ صحت اور مملکت کی انسانی امداد کے ادارے نے حال ہی میں دستخط کیے ہیں۔
امدادی ادارے کنگ سلمان ریلیف سینٹر کے ذریعے 10 ملین ڈالر کی گرانٹ میں سے تقریباً نصف تقسیم کے لیے مختص کی گئی ہے۔
اپریل میں شاہ سلمان نے اتنی ہی رقم کی امداد فراہم کی اور یوکرینی پناہ گزینوں کو ’فوری طبی اور دیگر امداد‘ فراہم کی اور ان پناہ گزینوں کو ترجیح دی جو پولینڈ پہنچ رہے تھے۔
رائل کورٹ کے مشیر اور شاہ سلمان سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ الربیعہ نے پولینڈ، اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے اور عالمی ادارہ صحت کے حکام کے ساتھ یوکرین میں انسانی بحران کی صورتحال پر بات چیت کی تھی۔
ڈاکٹر عبداللہ الربیعہ نے متعدد طبی سینٹرز کا دورہ کیا تھا اور یوکرینی پناہ گزینوں سے ملاقات بھی کی تھی۔
ایک یوکرینی پناہ گزین نے العربیہ نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے شاہ سلمان سینٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب یوکرین سے آئے اور ہم بہت ہی مشکل میں تھے۔ آپ کا شکریہ، ہماری حالات  بہتر ہو گئے ہیں۔ بہت شکریہ اور ہم دنیا میں امن کے خواہاں ہیں۔
کنگ سلمان ریلیف فنڈ نے پولینڈ ہی میں یوکرینی پناہ گزینوں کے لیے ایمرجنسی طبی سامان اور آلات فراہم کیے جس سے دس لاکھ سے زیادہ ضرورت مند پناہ گزینوں کو فائدہ پہنچا۔

مملکت کی جانب سے یوکرین کے پناہ گزینوں کی مدد سعودی عرب کی ان انسانی امداد کی سرگرمیوں میں ایک اضافہ ہے جو کہ 85 سے زائد ممالک میں کی جا رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی خبروں میں ایسا تاثر دیا گیا ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب نے تنازع میں فریق کا انتخاب کیا۔
مملکت کی جانب سے سیاسی اور انسانی امداد کے اقدامات اور تمام فریقین کو تنازع مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے کی تجویز کے باوجود مملکت کی کوششوں کو بعض حلقوں میں شک کی نظر سے دیکھا گیا۔
مارچ میں امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ سعودی عرب نے ’روس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے‘ اور ’پوتن کو بائیڈن پر ترجیح دی‘۔ مملکت پر الزام لگایا کہ اس نے سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافہ برقرار رکھا۔
یہ تبصرہ سعودی عرب کی طرف سے دونوں فریقین کے درمیان ثالثی کی پیشکش اور خلیجی ممالک کے ساتھ تیل کی پیداوار میں اضافے کے باوجود سامنے آیا۔
مارچ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مملکت روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہے۔

یوکرینی پناہ گزین پولینڈ سمیت دیگر ہمسایہ ممالک منتقل ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مئی میں ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے یوکرینی ہم منصب دمترو کولیبا سے ملاقات کی تھی اور یوکرین کے بحران پر بات چیت کی۔
اسی طرح مئی ہی میں شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ریاض میں ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران شہزادہ فیصل بن فرحان نے سلامتی اور استحکام کے حصول کے سیاسی حل کی اہمیت پر زور دیا۔
جون میں خلیج تعاون تنظیم کے وزارتی کونسل کے 152ویں اجلاس کے موقعے پر شہزادہ فیصل بن فرحان نے مملکت کے موقف کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’روس اور یوکرین بحران پر ہمارا یعنی خلیجی ممالک کا متفقہ موقف ہے۔
جنگ کے دوران غیرجانبدار رہنے اور انسانی ہمدردی کے کاموں کو ترجیح دینے کے سعودی فیصلے کو رائے عامہ کے ایک حالیہ سروے کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔

ڈاکٹر عبداللہ الربیعہ نے پولینڈ میں یوکرینی پناہ گزینوں سے ملاقات کی تھی۔ (فوٹو: عرب نیوز)

عرب نیوز نے ’یو گو پول‘ میں ایک ہزار سے زائد سعودی شہریوں سے ان کی رائے لی۔ ان میں سے 14 فیصد نے امریکی صدر پر تنازع کا الزام لگایا جبکہ 21 فیصد نے نیٹو کو مورد الزام ٹھہرایا۔
رائے دینے والوں کی ایک بڑی تعداد نے تنازع میں نیٹو کی شمولیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور 41 فیصد سعودی شہریوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ قصور وار کون ہے۔
اس تمام تنازع کے دوران 40 سے زیادہ ممالک، تنظیموں اور انفرادی عطیہ دہندگان نے امداد کے حوالے سے وعدے اور عزم کا اظہار کیا لیکن وعدے اور امداد کی فراہمی میں واضح فرق ہے۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو ابھی تک زیادہ تر مغربی حکومتوں نے انسانی امداد کے بجائے فوجی امداد کو ترجیح دی ہے۔
معاشی امور کے ادارے کیل انسٹی ٹیوٹ فار ورلڈ اکانومی کے مطابق امریکہ نے 23.8 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا وعدہ کیا ہے جو اب تک سب سے زیادہ فوجی امداد ہے جبکہ انسانی امداد کے لیے صرف 809 بلین ڈالر مختص کیے۔
اسی طرح یورپی یونین نے 12.3 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا وعدہ کیا تھا لیکن صرف 1.4 بلین ڈالر انسانی ہمدردی اور امداد کے لیےاستعمال کیے گئے۔

یوکرین کے لاکھوں شہری بے گھر ہوئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

گزشتہ مہینے صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔
دونوں ممالک نے توانائی، سلامتی اور یوکرین کے بحران سمیت باہمی دلچپسی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
بائیڈن کے مملکت کے دورے کے فوراً بعد سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے سی این بی سی سے حقائق کی درستگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم شروع سے کہتے آئے ہیں کہ قوموں کی سلامتی اور طاقت کے ناجائز استعمال کو قبول نہ کرنے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔
الجبیر نے کہا تھا کہ ’ہم نے روس اور یوکرین دونوں ممالک سے رابطہ کیا ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ بندی اور تنازع کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی جانب بڑھیں۔ دیگر ممالک کی طرح ہم بھی ان سے بات چیت کر رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ میدان جنگ میں لڑنے کے بجائے ایک دوسرے سے مذاکرات کی میز پر بات چیت کریں۔

جولائی میں امریکی صدر نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ (فوٹو: ایس پی اے)

دریں اثنا جب انسانی بنیادوں پر امداد دینے کی بات آتی ہے تو سعودی عرب کے وعدے عملی طور پر نظر آتے ہیں۔
جمعے کو پولینڈ کے سعودی سفیر سعد الصالح اور کنگ سلمان ریلیف سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ الربیعہ نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کے گودام کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے مملکت کی جانب سے 10 ملین ڈالر کی گرانٹ کے امدادی سامان کا معائنہ کیا۔

شیئر: