Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر جو بائیڈن کا کامیاب دورہ اور امریکہ کا سعودی عرب کی سکیورٹی کا عزم: عادل الجبیر

وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے امریکی صدر کے دورے کو کامیاب قرار دیا ہے۔
جمعے کی شام ایک مصروف دن کے بعد عرب نیوز کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے تاریخی تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
الجبیر نے کہا کہ ’امریکی صدر کی جانب سے سعودی کا ہر دورہ کامیاب ہوتا ہے اور اسی طرح ہر سعودی بادشاہ یا سعودی ولی عہد کی جانب سے امریکہ کا دورہ کامیاب ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آٹھ دہائیوں سے دونوں ممالک اتحادی اور شراکت دار ہیں۔ ان کے مفادات داؤ پر لگے ہیں اور ان کو زبردست چیلنجز کا بھی سامنا ہے جن کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں ممالک اکٹھے کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر کا دورہ تعلقات کی اہمیت، امریکہ کے لیے سعودی عرب اور عالمی امن و سلامتی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
جمعے کو شاہ سلمان کے ساتھ ملاقات کے بعد امریکی صدر اور ان کے مشیروں نے سعودی ولی محمد بن سلمان اور وزرا کے ساتھ ایک اجلاس میں شرکت کی جس نے مستقبل میں تعلقات کے لیے راہ ہموار کی۔
تعاون کی بہت سی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے عادل الجبیر نے کہا کہ ’دونوں ممالک توانائی کے تحفظ، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور غذائیت کی کمی کے شکار ملکوں کو خوراک کا تحفظ دینے کے حوالے سے باہہ کام کر رہے ہیں جبکہ عالمی سطح پر نقل و حمل کے حوالے سے بھی مل کر کام کیا جا رہا ہے۔‘
سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور، ٹیکنالوجی، بنیادی ڈھانچے اور صحت کی خدمات کے حوالے سے تعاون کے نئے فریم ورک کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ’وہ خلا میں دریافتوں کے علاوہ فائیو جی اور سکس جی کے ذریعے رابطے بڑھانے کے لیے بھی مل کر کام کر رہے ہیں۔ وہ وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ ہمارے پاس مستقبل کے وبائی امراض سے زیادہ موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے ایک طریقہ کار موجود ہے۔‘

وزیر مملکت برائے خارجہ امور کے مطابق امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اہمیت کے حامل ہیں۔ (فوٹو: ایس پی اے)

الجبیر نے زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا یہ جذبہ سفارت کاری اور انسانی ہمدردی کے شعبوں میں بھی موجود ہے۔
دونوں ممالک ایران کا مقابلہ کرنے اور عراق کی حمایت اور شام، لبنان، اسرائیل، فلسطین، یمن، ہارن آف افریقہ، لیبیا اور ساحل کے جی فائیو ممالک کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے سیاسی اور عسکری معاملات پر مل کر کام کر رہے ہیں۔
’وہ افغانستان کے معاملے پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے اور نارمل ملک ہو جہاں مرد و خواتین معمول کی زندگی گزار سکیں۔‘
امریکہ کے ساتھ دہائیوں پرانے تعلقات کے بارے میں عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اگلے 80 سالوں میں ہمارے تعلقات ایسے ہوں جو مضبوطی سے اس بات پر قائم ہوں کہ ہم کیسے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے سے پہلے شکوک و شبہات کیوں پیدا ہوئے، اس کے بارے میں وزیر مملکت برائے خارجہ امور کا کہنا تھا کہ ’شکوک پیدا کرنے والے عناصرشاید توجہ حاصل کرنے یا ڈرامے کی تلاش میں تھے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ تعلقات بہت ٹھوس نوعیت کے ہیں۔ یہ تعلقات اہم ہیں اور مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔‘
عادل الجبیر نے کہا کہ شاہ عبدالعزیز کے دور سے امریکی صدور اور سعودی بادشاہوں کے درمیان ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح 2015 سے امریکی صدور اور خلیج تعاون کونسل کے رکن کے ممالک کے سربراہوں کے درمیان بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات صدر باراک اوبامہ کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں ہوئی۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ خلیج تعاون کونسل کے رکن کے ممالک کے سربراہ 2017 میں بھی تھے۔ سنیچر کو بھی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ لہٰذا میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ شکوک و شبہات پیدا کرنے والے عناصر کیوں ایسے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ ان کا مسئلہ ہے۔ لیکن میں آپ کو حقیقت بتا سکتا ہوں کہ تمام چیلنجز اور وہ تمام شعبے جہاں ہم مل کر کام کر رہے ہیں اور جن کا ذکر میں نے پہلے کیا، یہ بلا تعطل جاری ہیں۔‘

جمعے کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور صدر جو بائیڈن کے درمیان ملاقات ہوئی۔ (فوٹو: ایس پی اے)

جمعے کو ایک اہم پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب سعودی عرب نے اپنی فضائی حدود اسرائیل کی کمرشل پروازوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا۔
جوبائیڈن پہلے امریکی صدر ہیں جو تل ابیب کے قریب بین گورین ایئرپورٹ سے کنگ عبدالعزیز ایئرپورٹ جدہ پہنچے۔
اس فیصلے کو امریکی صدر جو بائیڈن نے تاریخی قرار دیا تھا۔ عادل الجبیر نے کہا کہ یہ اعلان مملکت کے وژن 2030 کے سماجی اور معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کے تحت کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وژن 2030 کے حصے کے طور پر سعودی عرب اپنی معیشت کو پھیلانا چاہتا ہے۔ اس میں ریکریئیشن، تفریح اور ٹرانسپورٹیشن شامل ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے سعودی عرب ایشیا، افریقہ اور یورپ کے لیے ایک قدرتی مرکز ہے۔ بحیرہ احمر سے دنیا کی سمندری ٹریفک کا 14 فیصد گزرتا ہے سعودی عرب ان تین براعظموں کو ملانے والی فضائی نقل و حمل کا مرکز بن سکتا ہے۔
یوکرین کے جنگ کے تناظر میں امریکی صدر کے دورے سے قبل مبصرین کو توقع تھی کہ تیل کی پیداوار کا مسئلہ سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہوگا۔
اس پر وزیر مملکت برائے خارجہ امور کا کہنا تھا کہ ’تیل پر سعودی عرب کی پالیسی ہے کہ توانائی کی مارکیٹ میں توازن کو برقرار رکھا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ مارکیٹ کو مناسب طور پر تیل فراہم کیا جائے اور اس کی قلت نہ ہو۔‘
ان کہنا تھا کہ مارکیٹ کی طلب کو پورا کرنے کے لیے سعودی عرب مارکیٹ کی ضروریات کا جائزہ لے گا اور ان ضروریات کے مطابق فیصلے کرے گا۔
’ایسی صورت میں جب جغرافیائی و سیاسی یا پھر توانائی کے دیگر ذرائع کی قیمتوں کے باعث مارکیٹ میں خلل پڑتا ہے، چاہے وہ کوئلہ ہو یا قدرتی گیس، اس کی وجہ سے خام تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھتی ہیں۔ دراصل اس کا خام تیل کی کمی سے تعلق نہیں دوسرے عوامل سے ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’جہاں تک امریکہ میں گیسولین کی قیمتوں کا تعلق ہے تو اس کی وجہ ریفائننگ صلاحیت کی کمی ہے۔ امریکہ 40 سال سے زائد عرصے میں ریفائنری نہیں بنا سکا تاہم کسی حد تک ریگولیٹری کے معاملات کا تعلق ہے جس کی وجہ اب امریکہ میں گیس کے مختلف مرکبات موجود ہیں اور اسی باعث امریکہ کی مارکیٹ میں گیسولین کی فراہمی مشکل ہو جاتی ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو زیادہ تیل کی فراہمی سے اس کا مسئلہ حل نہیں ہو گا، سعودی عرب عالمی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اوپیک اور اوپیک پلس کے ساتھ کام کرنے کی پالیسی رکھتا ہے تاہم منڈیوں میں مناسب مقدار میں سپلائی ہو سکے، ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔‘
مجھے یقین ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو اس امر کا علم ہے کہ ہم نے کیا کچھ کیا ہے۔ اگر آپ صرف ایک سال پر ہی نگاہ ڈالیں تو سعودی عرب تیل کی پیداوار کافی حد تک بڑھانے میں کامیاب رہا ہے۔
سعودی عرب اور امریکہ کی تاریخی دوستی اور 1990 میں صدام حسین کی عراقی افواج کو شکست دینے کے لیے کویت میں امریکی فوجی بھیجنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آج بھی سلامتی سے متعلق تعاون کے اصول لاگو ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ خلیج کی سلامتی کے لیے پرعزم ہے اور سعودی عرب کی سلامتی کے لیے بھی پرعزم ہے۔ اور یہ تب سے ہے جب صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے شاہ عبدالعزیز سے ملے تھے۔‘

شیئر: