Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین کی جنگی مشقوں کے باوجود تائیوان میں سیاحت

بیجنگ کی فوجی مشقیں بھی چینی سیاحوں کو اپنے ہمسایہ ملک کے قریب جانے سے روکنے میں ناکام رہی ہیں (فوٹو: روئٹرز)
چین کے ساحل سے صرف دو میل کے فاصلے پر واقع تائیوان کے جزیرے مقبول سیاحتی مقام بن چکے ہیں۔
بیجنگ کی رواں ماہ کی بڑی فوجی مشقیں بھی چینی سیاحوں کو اپنے ہمسایہ ملک کے قریب جانے سے روکنے میں ناکام رہی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جنوبی تائیوان کی پنگٹنگ کاؤنٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق فوجی اہلکار لِن نے اپنا تین روزہ دورہ منسوخ کرنے سے انکار کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ چین صرف طاقت کے مظاہرے سے ملک میں قوم پرست جذبات کے حامل افراد کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں یوکرین میں روس کی جاری جنگ نے چینی صدر شی جن پنگ کو ایک انتباہ بھیجا ہے کہ تائیوان پر قبضہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اس کی قیمت بہت زیادہ ہوگی۔‘
امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کے دورے کے بعد امریکہ اور چین کے تعلقات میں سخت تناؤ پیدا ہوا تھا۔
نینسی پلوسی کے دورے کے بعد بھی چین نے فوجی مشقیں شروع کر دی تھیں اور تائیوان کے آس پاس کے پانیوں میں متعدد میزائل داغے اور ساتھ ہی جزیرے کی ناکہ بندی کرنے کے لیے لڑاکا طیارے اور جنگی جہاز بھیجے۔
اس ساری صورتحال کے باوجود کنمین جزیرے میں سیاحت جاری ہے۔
کنمین ایک سابقہ ​​جنگ کا میدان ہے جہاں کے رہائشیوں کو 1970 کی دہائی کے آخر تک چینی توپ خانے کی طرف سے کبھی کبھار گولہ باری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

نینسی پلوسی کے دورے کے بعد بھی چین نے فوجی مشقیں کیں۔ (فوٹو:اے پی)

لیکن یہ جزائر 1993 میں سیاحوں کے لیے کھولے گئے اور پھر جنگ کے دنوں کی یادگاریں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔
ساحلی شہر سنچو سے سفر کرنے والی 52 سالہ وینیسا چو کہتی ہیں کہ ’چینی حملے کے بارے میں فکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہمیں پُر سکون رہنا چاہیے اور اپنی زندگیوں کو آگے بڑھانا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں امن کی امید رکھتی ہوں۔ تائیوان چھوٹا ملک ہے اور اگر کشیدگی جاری رہی تو چین سے زیادہ تائیوان کو نقصان پہنچے گا۔‘
ایک نوجوان دلہن مسکراتی ہوئی ریت پر فوٹو شوٹ کے لیے پوز دیتی ہیں جبکہ ایک شخص سیاحوں کو دوربین پیش کر رہا ہے تاکہ وہ چھوٹے جزیروں کا مشاہدہ کر سکیں جن پر نصف صدی قبل چین نے بمباری کی تھی۔ اس میں 600 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تائی پے کے ایک بزرگ سیاح نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ چین تائیوان پر براہ راست حملہ نہیں کرے گا کیونکہ بہت زیادہ نقصان ہو گا۔‘
سابق فوجی اہلکار لِن نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر وہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ’تائیوان میرا گھر ہے۔ اگر ہم تائیوان کی حفاظت نہیں کریں گے تو ہماری حفاظت کون کرے گا؟‘

شیئر: