Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کانگریس کا وفد تائیوان میں ’امریکہ آگ سے کھیلنا بند کرے‘

نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد چین اور امریکہ کے تعلقات میں سخت کشیدگی پیدا ہوئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی کانگریس کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے تائیوان کا دورہ کیا ہے جسے امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کے دورے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وفد غیراعلانیہ دورے پر اتوار کو تائیوان پہنچا جبکہ چند روز قبل نینسی پلوسی کے دورے پر چین نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جنگی مشقیں شروع کر دی تھیں اور امریکہ و چین کے تعلقات میں سخت تناؤ پیدا ہوا تھا۔ 
 چین کی سرکاری نیوز ایجنسی ژنوا کے مطابق حکومتی حکام نے اس نئے دورے پر بھی سخت ردعمل دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’امریکی سیاست دانوں کو تائیوان کے معاملے میں آگ سے کھیلنا بند کر دینا چاہیے۔‘
تائیوان کی وزارت خارجہ کے مطابق پانچ رکنی وفد کی قیادت ایڈ مرکی کر رہے ہیں اور یہ صدر سائی انگ وین سے ملاقات کرنے کے علاوہ وزیر خارجہ جوزف وو کی جانب سے دیے جانے والی ایک ضیافت میں بھی شرکت کرے گا۔
تائیوان میں قائم ایک امریکی انسٹیٹیوٹ نے اس حوالے سے بیان میں بتایا ہے کہ ’وفد کے ارکان حکام کے ساتھ امریکہ تائیوان تعلقات، تجارت و سرمایہ کاری، موسمیاتی تبدیلیوں اور دوسرے اہم اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ کریں گے۔‘

امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی اپنے دورے میں تائیوان کا ساتھ دینے پر زور دیا تھا (فوٹو: اے پی)

تائیوان کی وزارت خارجہ امور نے وفد کے دورے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کو تائی پے اور واشنگٹن کے درمیان مضبوط تعلقات کی جانب ایک اور قدم قرار دیا ہے۔
وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جیسا کہ چین خطے میں کشیدگی بڑھا رہا ہے، امریکی کانگریس نے ایک اعلیٰ سطح کا وفد تائیوان بھجوایا ہے، جس کا مقصد تائیوان کو دوستی کا پیغام دینا ہے اور یہ بتانا ہے کہ وہ چیی دھمکیوں سے نہ گھبرائے۔‘
کانگریس کے وفد کے دوسرے ارکان میں جان گیرامینڈی، ایلن لووینتھل، ڈان بیئر اور اوما اماتا کولمین شامل ہیں۔
خیال رہے رواں ماہ کے آغاز میں جب امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی چار ایشیائی ملکوں کے دورے پر روانہ ہوئیں تو اس وقت سے یہ افواہیں شروع ہو گئی تھیں کہ وہ تائیوان بھی جائیں گی جس پر چین نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
اس سے قبل وہ یوکرین کے دارالحکومت کیئف کا دورہ بھی کر چکی تھیں، جب کہ تائیوان جان سے قبل انہوں نے اپنے ایک  مضمون میں لکھا تھا ’ہم کو تائیوان کے ساتھ ضرور کھڑا ہونا چاہیے۔‘
دوسری جانب چین کی دھمکیوں اور تحفظات کے جواب میں امریکی صدر جو بائیڈن کے بعد نینسی پلوسی نے بھی واضح کیا تھا کہ ان کی ’ایک چین پالیسی‘ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور تائیوان کے ساتھ غیررسمی اور دفاعی تعلقات بھی اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔
تائیوان چین کا پڑوسی ملک ہے جس پر چین اپنی ملکیت کا دعوٰی رکھتا ہے جبکہ تائیوان خود کو خودمختار ملک قرار دیتا ہے۔

چین نے ردعمل میں تائیوان کے بارڈر کے قریب جنگی مشقوں کا آغاز کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

تائیوان 1949 تک چین کا حصہ تھا اور اسی سال خانہ جنگی کے دوران الگ ہوا تھا۔
تاہم اس کے بعد بھی چین مسلسل اس دعوے کو دہراتا رہا ہے کہ وہ اس کا حصہ ہے اور اس حد تک سخت موقف رکھتا ہے کہ وہ اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے فوجی کارروائی بھی کر سکتا ہے۔
چین حالیہ برسوں کے دوران تائیوان پر فوجی اور سفارتی دباؤ بڑھاتا رہا ہے۔ اس نے 2016 میں اس وقت تائیوان سے ہر قسم  کے تعلقات منقطع کر لیے تھے جب صدر سائی انگ ون نے چین کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جس میں ایک قوم کے طور پر رہنے کا کہا گیا تھا۔
اسی طرح بیجنگ امریکہ کے تائیوان سے تعلق کو اس لیے بھی شک کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے نزدیک اس سے جزیرے کی دہائیوں پر محیط آزادی کی جدوجہد کی حوصلہ افزائی ہو گی حالانکہ امریکی حکام کہتے رہے ہیں کہ وہ اس کو سپورٹ نہیں کر رہے۔

شیئر: