Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اہلیہ کا اقامہ کارڈ جوازات سے خود وصول کیا جاسکتا ہے؟

جوازات کے دفترسے رجوع کرنے کے لیے پیشگی وقت لینا ضروری ہے( فائل فوٹو ایس پی اے)
 سعودی عرب میں امیگریشن قوانین میں گزشتہ برس سے متعدد تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں ڈی پورٹ ہونے والے شامل ہیں۔
جوازات کے مرکزی سسٹم میں ایسے غیر ملکی کارکنان جن کے خلاف قانون شکنی درج کی جاتی ہے کا مکمل ڈیٹا فیڈ کیاجاتا ہے تاکہ کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پرمعلومات متعلقہ ادارے کوفراہم کی جاسکیں۔ 
ہرملک کی طرح سعودی عرب میں بھی غیر قانونی طورپرآنے والے افراد کو ڈی پورٹ کرنے کےلیے ڈی پوٹیشن سینٹرموجود ہے جسے عربی میں ’ترحیل‘ کہا جاتا ہے۔ 
شعبہ ترحیل میں لائے جانے والے غیرقانونی طور پرمقیم غیرملکیوں کے فنگرپرنٹ لینے کے بعد ان کے بارے میں ریکارڈ حاصل کیاجاتا ہے تاکہ اس امر کی یقین دہانی کی جاسکے کہ زیرحراست غیر ملکی کسی مجرمانہ کارروائی میں توملوث نہیں رہا یا کسی ادارے کو مطلوب تو نہیں۔ 
جوازات کے ٹوئٹرپرایک شخص نے دریافت کیا’ اہلیہ کا اقامہ کارڈ وصول کرنے جوازات کے دفتر سے خود رجوع کیا جاسکتاہے؟‘ 
سوال کے جواب میں جوازات کا کہنا تھا کہ’ ڈیجیٹل سروسز کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ’ ڈلیوری‘ سروس بھی موجود ہے جس کے ذریعے اقامہ کارڈ طلب کیاجاسکتا ہے‘۔ 
’تجدید شدہ اقامہ کارڈ جوازات کے دفتر سے بھی حاصل کیاجاسکتا ہے تاہم اس کے لیے کارڈ ہولڈرنہیں بلکہ کفیل یا اس کی جانب سے مقرر کردہ نمائندہ ہی جوازات کے دفتر سے رجوع کرے گا‘۔ 
جوازات کے کسی بھی دفترسے رجوع کرنے کے لیے پیشگی وقت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اپائنٹمنٹ کا پرنٹ بھی درکارہوتا ہے جو جوازات کے اہلکار کو پیش کیاجاتاہے۔ 
قانون کےمطابق اہلیہ کے قانونی معاملات کی انجام دہی کی ذمہ داری اسکے شوہر پرہوتی ہے۔ قانون کے مطابق خاتون اپنے شوہر کی زیر کفالت ہے اس اعتبار سے جوازات سے اہلیہ کا اقامہ کارڈ حاصل کیا جاسکتا ہے۔  

سعودی وزارت نے گزشتہ برس ڈی پورٹ سے متعلق نیا قانون منظورکیا ہے( فوٹو ٹوئٹر)

 جوازات کے ٹوئٹرپرایک شخص نے دریافت کیا کہ ’ڈی پورٹ (ترحیل سے جانے والے ) کیے جانے والے کب سعودی عرب جاسکتے ہیں؟‘ 
اس حوالے سے سعودی وزارت نے گزشتہ برس سے نیا قانون منظورکیا ہے جس پرکافی عرصے سے عمل درآمد جاری کیا جاچکا ہے۔ 
کوئی بھی غیر ملکی جسے کسی بھی جرم میں ڈی پورٹ کیاجاتا ہے وہ تاحیات مملکت میں ورک ویزے پردوبارہ نہیں جاسکتا جبکہ اس سے قبل ایسے افراد جنہیں ڈی پورٹ کیاجاتا تھا وہ معینہ مدت کے لیے بلیک لسٹ ہوتے تھے۔  
ماضی میں ڈی پورٹ ہونے والوں کے لیے بلیک لسٹ کی مدت کا تعین تحقیقاتی افسرکی جانب سے کیاجاتا۔ جرم کی نوعیت کودیکھتے ہوئے بلیک لسٹ ہونے کی مدت کا تعین کیا جاتا تھاجو 3 سے 10 برس تک ہوتی تھی تاہم سنگین نوعیت کے جرائم میں سزا یافتہ افراد کو ماضی میں بھی تاحیات بلیک لسٹ کیاجاتا تھا۔ 
خیال رہے قانون کے مطابق ایسے غیر ملکی جو کسی بھی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث ہوتے ہیں یا اقامہ قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں انہیں گرفتاری پرڈی پورٹ کردیاجاتا ہے نئے قوانین کے تحت ڈی پورٹ ہونے والوں کو ورک ویزے پرمملکت آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

شیئر: