Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’غیرت کے منافی ہوگا‘، سیلاب میں گھرے 400 مکین گاؤں چھوڑنے سے انکاری

پاکستان میں سیلاب نے جہاں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے اور لاکھوں شہریوں کو متاثر کیا وہیں صوبہ پنجاب کے علاقے روجھان میں ایک ایسا گاؤں بھی ہے جہاں ’غیرت کے نام‘ پر خواتین کو سیلابی پانی میں ڈوبے علاقے میں ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ’بستی احمد دین‘ کے 400 رہائشی مون سون کی شدید بارشوں میں گھرے ہوئے ہیں اور اب بھوک اور بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان افراد نے ریسکیو کے لیے آنے والی ٹیم کے ساتھ  بھی جانے سے انکار کر دیا ہے۔
رہائشیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ علاقہ چھوڑ کر ریلیف کیمپ میں جانے کا مطلب ہو گا کہ اُن کی خواتین خاندان کے علاوہ دیگر مردوں سے گھل مل لیں گی اور یہ ’غیرت‘ کے خلاف ہے۔
بستی احمد دین کی خواتین نے اس معاملے پر اپنے تاثرات کا اظہار نہیں کیا۔ 
سیلابی پانی سے متاثرہ اس گاؤں کی 17 سالہ شیرین بی بی سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنی حفاظت کے لیے خشکی پر موجود کیمپ میں جانا چاہیں گی، تو اُن کا جواب تھا کہ ’یہ گاؤں کے بڑوں کا کام ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔‘
مون سون کی بارشوں کے بعد جنوبی پنجاب کے ایک بڑے علاقے میں سیلابی پانی کھڑا ہے اور بستی احمد دین کی طرح کے سینکڑوں گاؤں متاثر ہوئے ہیں جہاں کئی مکانات  بھی گر گئے ہیں۔
روجھان کے اس گاؤں میں 90 سے زیادہ مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
اس گاؤں کے گرد پھیلے کپاس کے کھیتوں میں اب پانی میں ڈوبی ہوئی فصل خراب ہو رہی ہے اور اس گاؤں کو قریبی شہر سے ملانے والی کچی سڑک پر دس فٹ تک پانی کھڑا ہے۔

بستی احمد دین میں 90 سے زیادہ مکانات مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

تختے جوڑ کر بنائی گئی کشتیاں اس گاؤں تک رسائی کا واحد ذریعہ ہیں جن پر لوگ اب قریبی علاقوں سے کھانے پینے کی اشیا یہاں پہنچا رہے ہیں۔
ان کشتیوں کو چلانے والے اب بہت زیادہ معاوضے وصول کر رہے ہیں۔
بستی احمد دین کے رہائشی اب پریشان بھی ہیں اور انہوں نے سارے گھروں میں موجود گندم اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کو ایک جگہ اکھٹا کر کے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
علاقے میں پہنچنے والے متعدد رضاکاروں نے بستی کے مکینوں کو حفاظت کے پیش نظر ریلیف کیمپ جانے کی درخواستیں کی ہے مگر اب تک کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا۔
بستی احمد دین کے رہائشی محمد عامر نے علاقے کی روایات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم بلوچ ہیں۔ بلوچ اپنی خواتین کو باہر نہیں جانے دیتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچ اپنے اہل خانہ کو علاقے سے باہر نکالنے کے بجائے بھوک سے مرنا بہتر سمجھیں گے۔‘

شیئر: