Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیمز سیلاب آنے کا خطرہ کم کرتے ہیں یا اسے مزید بڑھاتے ہیں؟

ماہرین کے مطابق ’پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں 20 بڑے سیلاب آئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے سیلاب سے نمٹنا نہیں سیکھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ستمبر 2010 کی چلچلاتی دھوپ تھی۔ نوشہرہ شہر کی گلیوں، سڑکوں اور محلوں میں سیلاب کے ساتھ آنے والے کیچڑ اور تعفن کی بھرمار تھی۔ پاؤں کیچڑ میں دھنس رہے تھے اور جگہ جگہ پھسل رہے تھے۔
 بدبو نتھنوں میں گھسی جا رہی تھی، چہرے پر مکھیاں اور مچھر بھنبھنا رہے تھے، اور سر پر سورج کی تیز شعائیں آگ برسا رہی تھیں۔
نوشہرہ ہسپتال سے کیچڑ اور ملبہ نکال کر اس کو مریضوں کے لیے بحال کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں جس سے بھی پوچھا جاتا کہ کالا باغ ڈیم بن جاتا تو اچھا تھا یا برا تو اس کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ ’نوشہرہ نے ویسے بھی ڈوبنا تھا، نوشہرہ ایسے بھی ڈوب گیا۔‘
اگست 2022 کا سیلاب آیا تو اس ڈیم کی تعمیر کی نمایاں مخالف جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایمل ولی خان نے کہا کہ ’سوچیں! آج اگر کالاباغ ڈیم بنا ہوتا تو کتنی تباہی ہونا تھی۔ ہم اپنے اکابرین کے مشکور ہیں جنہوں نے ہمیں اس تباہی سے بچایا۔‘
دوسری طرف ملک میں ڈیم بنانے کے حامی افراد حالیہ سیلاب کے بعد بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ نہ صرف کالا باغ ڈیم بلکہ ملک کے ہر اس دریا پر ڈیم بنا دیا جائے جہاں سیلاب آتا ہے۔ ان کے نزدیک ڈیموں کی تعمیر ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے سیلابوں کو روکا جا سکتا ہے۔

 

تو کیا ڈیم سیلاب کو روکتے ہیں اور پانی ذخیرہ کر کے توانائی اور زراعت کے لیے میسر کرتے ہیں یا پھر شہروں کو ڈبوتے ہیں اور سیلاب کے دوران ٹوٹنے کے خطرے سے بھی دو چار رہتے ہیں؟

’پاکستانی ڈیم بوقت ضرورت پانی دیتے نہیں، روکنے کے وقت روکتے نہیں‘

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی زیر نگرانی فلڈ رسک مینجمنٹ میں ماسٹرز کرنے والے بین الاقوامی فلڈ رسک کنسلٹنٹ اور آبی سائنس دان محمد عبداللہ کے مطابق ’ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنا اور روکنا پرانے زمانے کا طریقہ ہے اور جدید تحقیق ڈیم کو سیلاب روکنے کا ذریعہ نہیں سمجھتی۔‘
ان کے مطابق ’ڈیم بہتے پانی پر نہیں بنانے چاہییں اور سیلاب روکنے کے لیے تو بالکل بھی نہیں بنانے چاہییں کیونکہ ان کے بھر کر ٹوٹ جانے کے باعث سیلاب کئی گنا زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے اور اس سے تباہی کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔‘

سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک آج بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ بڑے ڈیمز بننے چاہییں (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے محمد عبداللہ نے کہا کہ ’خاص کر پاکستان میں جب خشکی ہوتی ہے اور پانی کے ذخیرے کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہوتی ہے، اس وقت ڈیم پانی نہیں دیتے کیونکہ یہ خالی ہوتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب ان ڈیموں کو پانی روکنا ہوتا ہے، یہ نہیں روکتے کیونکہ ریت بھر جانے کی وجہ سے اور ویسے بھی ان کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے اور مجبوراً سپل ویز کھولنا پڑتے ہیں۔‘

سیلاب کا زور توڑنے کے لیے ڈیم نہیں نہریں

عبداللہ کہتے ہیں کہ ’سیلاب سے نمٹنے کے جدید طریقے کے تحت بہتے پانی کو مختلف نہروں میں تقسیم کر کے اس کے زور کو توڑ دیا جاتا ہے اور پھر اس کو ایک خاص مقام پر لے جا کر زیر زمین ذخیرے میں بھیج دیا جاتا ہے۔‘
 ’اس سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے اور بوقت ضرورت اس کو ٹیوب ویل کے ذریعے نکال کر آب پاشی یا پینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، یا پھر دریا کے بہاؤ سے ہٹ کر کسی مقام پر ایک ڈیم بنا کر اس میں پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’پاکستان میں ڈیم بنانے کی ایک بڑی وجہ پانی ذخیرہ کر کے بجلی پیدا کرنا ہے لیکن اب شمسی اور ہوا کے دباؤ کے تحت پیدا ہونے والی بجلی کہیں زیادہ مفید ہے اس لیے بجلی بنانے کے لیے بھی ڈیم قابل عمل نہیں رہے۔‘

آبی ماہر ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ ’ہمیں صرف اور صرف دریاؤں کا رستہ چھوڑنا اور انہیں اصل حالت میں بحال کرنا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

محمد عبداللہ سمجھتے ہیں کہ ’سیلابوں سے ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے ان کے راستے خالی کر دینے چاہییں اور تعمیرات اور آبادیوں کو دریاؤں کی گزرگاہ سے کم سے کم دو کلومیٹر دور لے جانا چاہیے۔‘
’پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں 20 بڑے سیلاب آئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری انتظامیہ نے سیلاب سے نمٹنا نہیں سیکھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سیلاب کی چھ قسمیں ہوتی ہیں جن میں تین اہم اقسام فلیش فلڈ، دریا کے بہاؤ کا سیلاب، اور اربن فلڈنگ (شہروں میں آنے والے سیلاب)۔ ان سب سے نمٹنے کے مختلف طریقے ہیں۔ پانی کی نکاسی کے راستے جتنے اچھے اور صاف ہوں گے، سیلاب سے اتنی ہی زیادہ بچت ہوگی۔‘
’حکومت کو فلڈ میپنگ اور فلڈ ماڈلنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پوری تیاری سے سیلابوں سے نمٹا جائے اور ان کا پانی استعمال کیا جائے۔‘

دنیا میں ڈیموں سے نجات کی مہم

امریکہ میں دریائی نظام سے متعلق تحقیق شائع کرنے والی ایک ویب سائٹ ’امیریکن ریورز‘ کے مطابق وہاں پانی کے راستوں کی بحالی اور دریائی نظام کی بہتری کے لیے گذشتہ ایک صدی میں 1797 ڈیمز ختم کیے جا چکے ہیں۔
 اس پالیسی کے تحت 2020 تک سب سے زیادہ ڈیمز ختم کرنے والی امریکی ریاستوں میں اوہایو نے 11 جبکہ میساچوسٹس اور نیو یارک نے چھ چھ ڈیموں کا خاتمہ کیا۔

آبی ماہر محمد عبداللہ سمجھتے ہیں کہ ’حکومت کو فلڈ میپنگ اور فلڈ ماڈلنگ کرنے  کی ضرورت ہے تاکہ سیلابوں سے نمٹا جائے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ویب سائٹ کے مطابق 1990 سے لے کر  2015 تک امریکہ نے 900 ڈیمز ختم کیے جب کہ 2015 کے بعد سے سالانہ 50 سے 60 ڈیم ختم کیے جا رہے ہیں۔
’فرانس اور کینیڈا نے بھی ڈیموں کے خاتمے کے نمایاں منصوبے شروع کیے ہیں جب کہ جاپان نے ڈیموں کے خاتمے کا منصوبہ 2012 میں دریائے کوما پر اریز ڈیم کو ختم کرنے سے شروع کیا جو 2017 میں مکمل ہوا۔‘
تاہم پاکستان میں بڑے ڈیم بنانے کے حامی اور کالا باغ ڈیم کی تحریک کے ایک سرخیل سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک آج بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ بڑے ڈیمز بننے چاہییں۔

ڈیم سستی بجلی کا ذریعہ

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگر آپ ڈیم نہیں بنائیں گے تو سستی اور اچھی بجلی پیدا نہیں کر سکیں گے۔ چین نے پانچ ہزار ڈیمز بنائے ہیں، ہمیں بھی زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانے چاہییں۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ بجلی بنانے کے دوسرے ذرائع جن میں شمسی اور ’ونڈ انرجی‘ شامل ہیں موجود ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’پانی سے بننے والی بجلی سستی ہے۔‘
’ہمیں پانی کو سمندر میں جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ پاکستان ہر 10 سال بعد ایسے بڑے سیلاب کا سامنا نہیں کر سکتا۔ ہمیں ورلڈ بینک نے 30 سال پہلے کہا تھا کہ ہمیں پانی جمع کرنے کے لیے جگہیں تلاش کرنی چاہییں۔ ہمیں آج بھی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے یہ جگہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘

’حکومت دو بڑے ڈیموں مہمند اور دیامر بھاشا کے علاوہ سینکڑوں چھوٹے اور درمیانے سائز کے ڈیمز بھی بنا رہی ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ڈیم پانی روکنے کا ذریعہ یا کمائی کا؟

دوسری جانب آبی وسائل کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس سیلاب روکنے کے لیے دونوں طریقوں یعنی ڈیمز اور نہریں بنانے کے خیال سے اختلاف کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ڈیموں کی تعمیر کے پیچھے تعمیراتی سامان بیچنے والی اور بڑی تعمیرات کے ٹھیکے لینے والی ایک بڑی لابی موجود ہوتی ہے جس کا واحد مقصد ان تعمیرات سے پیسے کمانا ہوتا ہے کیونکہ سیلاب روکنے میں ڈیمز بالکل بھی مؤثر نہیں ہیں۔ اسی طرح نہری نظام میں بھی پیچیدگیاں ہیں اور یہ سیلاب سے نمٹنے کا موثر حل نہیں ہے۔‘

سیلاب کو اپنانے کی ضرورت

ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ ’ہمیں صرف اور صرف دریاؤں کا رستہ چھوڑنا ہے اور ان کو ان کی اصل حالت میں بحال کرنا ہے۔ اگر ہم سیلاب کے رستے میں نہریں بنانا شروع کردیں گے تو یہ  کوئی اور تباہی لے کر آئیں گی۔ ہمیں دریاؤں میں قائم تعمیرات اور آبادیوں کو بتدریج ختم کرنا ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں سیلاب کو اپنانے کی ضرورت ہے، ایسا کرنے کی صورت میں دریا خود ہی سیلاب سہہ لیں گے۔‘
ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق ’اگر ہم دریاؤں کے راستوں سے تجاوزات ختم کردیں گے تو سیلابوں کی شدت کم ہو جائے گی اور ان سے نقصان نہیں ہوگا بلکہ یہ ہمارے لیے فائدے کا باعث بنیں گے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ورلڈ بینک نے 30 سال پہلے کہا تھا کہ ہمیں پانی جمع کرنے کے لیے جگہیں تلاش کرنی چاہییں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’دریاؤں کی ریت کے نیچے 500 ملین ایکڑ پانی موجود ہوتا ہے۔ یہ پانی سیلاب آنے کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے۔ ہم ٹیوب ویلز کے ذریعے یہ پانی نکال کر استعمال کر سکتے ہیں اور پائپ لائنوں کے ذریعے آبادیوں اور کھیتوں میں لے جا سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر حسن عباس نے مزید بتایا کہ ’اس کے استعمال کے بعد جب سیلاب آئے گا تو اس کی وجہ سے ریت کے نیچے یہ پانی دوبارہ جمع (ریچارج) ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ آبی حیات بھی آئیں گی اور پانی سے میلان رکھنے والے پرندے بھی۔ اس سے ہمارے دریاؤں کو وسعت ملے گی اور زیر زمین پانی کی سطح بلند رہے گی۔‘
ان کے مطابق ’پانی سے بجلی بنانے اور نہروں سے آب پاشی کا نظام اب دنیا بھر میں ختم ہو رہا ہے۔‘
’ بجلی بنانے کے اب کئی متبادل ذرائع ہیں جب کہ نہری نظام آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ اس سے بہتر پائپ لائنوں کے ذریعے پانی کی فراہمی زیادہ بہتر ہوتی ہے۔‘

پاکستان میں سینکڑوں ڈیموں کی تعمیر جاری

تاہم حکومتی ماہرین کے مطابق سیلاب سے نمٹنے کے لیے کسی ایک طریقے پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لیے مختلف ذرائع پر مشتمل حکمت عملی بنتی ہے۔
وفاقی وزارت آبی وسائل کے سینیئر عہدیدار سید مہر علی شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت سیلاب سے نمٹنے کے لیے تمام طریقوں کو ایک پیکج کے طور پر آزما رہی ہے۔‘

وزارت آبی وسائل کے مطابق ’حکومت سیلاب سے نمٹنے کے لیے تمام طریقوں کو ایک پیکج کے طور پر آزما رہی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’زیر زمین پانی کو ری چارج کرنے کے لیے الگ حکمت عملی موجود ہے۔ سیلاب روکنے کے لیے کوئی واحد حل نہیں ہے۔ اگر ہم ڈیمز نہیں بناتے اور صرف ری چارج کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں تو یہ درست نہیں ہو گا۔‘
 ان کے مطابق ’اسی طرح اگر ہم صرف ڈیم بناتے ہیں اور زیر زمین پانی کو ریچارج کرنے کے طریقے نہیں اپناتے تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔‘
سید مہر علی شاہ کہتے ہیں کہ ’حکومت دو بڑے ڈیموں مہمند اور دیامر بھاشا کے علاوہ سینکڑوں چھوٹے اور درمیانے سائز کے ڈیمز بھی بنا رہی ہے۔‘
’وفاقی حکومت ڈیمز بنا رہی ہے اور صوبائی حکومتیں بھی بنا رہی ہیں۔ صرف بلوچستان میں 200 چھوٹے ڈیموں کا ایک منصوبہ اور 100 دیگر چھوٹے ڈیموں کا دوسرا منصوبہ جاری ہے۔ اسی طرح دوسرے صوبوں میں بھی اسی طرح کے منصوبے چل رہے ہیں۔‘

شیئر: