Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب کی بیوروکریسی کو کیسے قابو کیا؟  

پرویز الٰہی نے پولیس اور بیورو کریسی کے ساتھ اکھٹے کام کرنے کا اعلان کیا۔ فوٹو: سکرین گریب
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں طرز حکمرانی کیسی ہونی چاہیے یہ ہمیشہ ہی ایک دلچسپ موضوع رہا ہے۔ اسی مناسبت سے گذشتہ دو دہائیوں میں یہاں حکمرانی کروانے والوں کو ان کے ماڈلز سے پہچانا جاتا ہے۔
ایک شہباز شریف ماڈل تھا جس میں وہ ہر وقت کام کرتے ہی دکھائی دیتے تھے۔ چاہے رات کا وقت ہو یا علی الصبح کا وہ ہمیشہ اپنے طرز حکمرانی کی وجہ سے خبروں میں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین بھی ان کی کبھی کبھار تعریف کر ہی دیتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں کام لینے کا فن آتا ہے۔  
پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی عثمان بزدار بھی ساڑھے تین سال پنجاب کے حاکم رہے اور ان کے دورے حکومت میں جو خبر تواتر سے میڈیا کی زینت بنی وہ تھی ’بیوروکریسی کام نہیں کر رہی۔‘ اور یہ بات سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی کئی مرتبہ آن ریکارڈ کہی۔
گذشتہ بیس برسوں کے دوران پنجاب میں ایک تیسرا ماڈل بھی رہا ہے اور اِس وقت دوبارہ یہی ماڈل کار فرما ہے، وہ ہے چوہدری پرویز الٰہی ماڈل۔
تحریک انصاف کی سابق حکومت میں یہ بات جب زبان زد عام تھی کہ بیورو کریسی کام نہیں کر رہی تو تحریک انصاف کی دوبارہ حکومت آنے پر جب چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلٰی بنے تو یہی سوال تھا کہ آیا بیوروکریسی اب بھی کام نہیں کرے گی؟ 
چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلٰی بنے دو ماہ ہو چکے ہیں اور ان دو مہینوں کے دوران ان کے بارے میں تاثر ہے کہ پنجاب میں اب حکومت کو بیورو کریسی سے بظاہر کوئی شکایت نہیں ہے اور نہ ہی بیوروکریسی کو کوئی مسئلہ ہے۔

پرویز الٰہی نے وزیراعلٰی بننے کے بعد غیر ضروری تبادلے نہیں کیے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی شہباز شریف کی طرح چوہدری پرویز الٰہی دن رات فیلڈ میں تو نظر نہیں آتے لیکن ان کا ’ماڈل‘ بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔  
چودری پرویز الٰہی کا ماڈل کیا ہے؟ 
وزیر اعلٰی پنجاب بنتے ہی چوہدری پرویز الٰہی نے غیر ضروری تبادلوں کے بجائے پہلے سے موجود افسران حتیٰ کہ چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کے ساتھ ایک ٹیم کے طور پر کام کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے رواں ہفتے سول سیکریٹریٹ کا دورہ کیا اور سیکریٹریز کی کانفرنس بلائی۔ تمام محکموں کے ساتھ کئی گھنٹے گزارے اور ایک ہی ہدایت دی کہ ’کوئی بھی فائل دو روز سے زیادہ کسی افسر کی ٹیبل پر نہیں رکنی چاہیے۔‘
صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے درمیانے اور چھوٹے افسران کے ساتھ ’ورکنگ ریلیشن شپ‘ بنانے کے لیے غیر متوقع مراعات کا اعلان بھی کیا۔  
ترجمان وزیراعلٰی کے مطابق ’چوہدری پرویز الٰہی نے گورنمنٹ آفیسرز ریزیڈینسز جن کو جی او آر کہا جاتا ہے کے بڑے گھروں اور کوٹھیوں کا رقبہ کم کر کے نئے افسروں کے لیے اپارٹمنٹس بنانے کا اعلان کیا ہے کیونکہ جی او آر میں اس وقت 8،8 کنال کے بھی گھر ہیں۔‘
خیال رہے کہ اس وقت لاہور میں چار ہزار افسران جی او آرز میں رہائش حاصل کرنے کے لیے درخواست قبول ہونے کے منتظر ہیں۔  
اسی طرح پرویز الٰہی نے پولیس افسران اور جوانوں کی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنے والے اہلکاروں کے لیے سپیشل الاؤنس کا اعلان کیا ہے۔  
پبلک پالیسی اور گورننس کے پروفیسر ڈاکٹر ارشد سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے تناظر میں موجودہ ماڈل کارگر ہے۔
’سرکاری افسروں کو اختیارات استعمال کرنے کی طاقت دیں، ساتھ ہی انہیں مراعات دیں اور مراعات بھی درمیانے اور نچلے سطح کے افسران اور اہلکاروں کو تو یقیناً اس سے بیورو کریسی کام کرنے اور ٹیم ورک میں عار محسوس نہیں کرتی۔‘  

عمران خان بھی بیوروکریسی کے کام نہ کرنے کا شکوہ کرتے آئے ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)

انہوں نے بتایا کہ ’پرویز الٰہی نے ہمیشہ اسی طرح سے حکمرانی کی ہے۔‘
’جب 2002 میں وہ وزیر اعلٰی بنے تو ان پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ شہباز شریف کے تاثر کو توڑنا ہے۔ اور پھر یہ ہوا بھی۔ ریسکیو 1122 دیکھ لیں، انفراسٹکرچر دیکھیں آج بھی یہ منصوبے چل رہے ہیں۔ اب ان کے پاس تجربہ پہلے سے زیادہ ہے۔‘
پروفیسر ڈاکٹر ارشد کے مطابق ’یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی شکایتیں بند کر کے صرف کام پر فوکس کیا ہے۔ اور اس میں سب سے پہلے بیوروکریسی اور پولیس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے ہیں۔ اور یہی کنجی ہے جو بزدار کے پاس نہیں تھی۔ اسی کنجی کو شہباز شریف اپنے انداز میں استعمال کرتے ہیں۔‘  
سیاسی مبصرین کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کے پاس کم وقت ہے کہ وہ ق لیگ یعنی اپنی سیاسی جماعت کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنا لیں۔
سینیئر تجزیہ کار وجاہت مسعود کے مطابق ’پرویز الٰہی صرف دس سیٹوں کی وجہ سے اِس وقت پنجاب کے حاکم بنے ہوئے ہیں۔‘
’ان کی ساری توجہ اب بھی اپنی سیاسی بقا ہے۔ ابھی آپ دیکھیے گا سرکاری وسائل کے در کھول دیے جائیں گے اور نوکریاں بھی نکالی جائیں گی ۔ ابھی سن رہے ہیں کہ گجرات کے لیے اربوں روپے کے فنڈز پہلے ہی منظور کروا لیے گئے ہیں۔‘   
سیاسی فائدہ اپنی جگہ لیکن اس وقت تحریک انصاف ہو یا دیگر سٹیک ہولڈرز یہ بات سنائی نہیں دے رہی کہ پنجاب میں بیورو کریسی کام نہیں کر رہی، جس بات کا چرچا عثمان بزدار کے ساڑھے تین سال کے دور حکومت میں تواتر سے رہا۔  

شیئر: