Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چوتھی مرتبہ وزیر خزانہ بننے والے اسحاق ڈار کون ہیں؟

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھا لیاہے۔ سینیٹر اسحاق ڈار کسی بھی وقت وزارت کا حلف اٹھا کر پاکستان کے سب سے زیادہ مرتبہ وزیر خزانہ بننے کا اعزاز اپنے نام کر لیں گے۔ 
مالیاتی اور اقتصادی امور کے ماہر سینیٹر اسحاق ڈار کا تعلق پنجاب سے ہے اور ان کا شمار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماؤں میں ہوتا ہے۔
وہ اپنے تعلیمی ریکارڈ اور پیشہ ورانہ صلاحیت کی وجہ سے مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کی پہچان ایک ٹیکنوکریٹ سیاستدان کے طور پر ہے۔
اسحاق ڈار نے گورنمنٹ کالج لاہور (اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی)، ہیلے کالج آف کامرس اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما پیچیدہ مالی، اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری اور صنعتی مسائل کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔

اسحاق ڈار اشتہاری کیوں ہوئے؟ 

قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پانامہ کیس فیصلے کی روشنی میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
پانامہ کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ ’اسحاق ڈار کے اثاثوں میں بہت کم عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا اور وہ 90 لاکھ روپے سے بڑھ کر 83 کروڑ 10 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔‘
اس ریفرنس میں ایک دو بار عدالت میں پیشی کے بعد اسحاق ڈار اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ لندن گئے اور واپس نہ لوٹے۔ متعدد بار پیش ہونے کے احکامات کے بعد عدالت نے انھیں دسمبر 2017 میں اشتہاری قرار دے دیا۔ 

اسحاق ڈار پانچ سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

وہ سنہ 1980 کے اوآخر سے مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہیں جبکہ 2002 سے ن لیگ کے بین الاقوامی امور کے صدر بھی ہیں۔

بطور اقتصادی ماہر

اسحاق ڈار پاکستان اور بیرون ملک نجی اور سرکاری دونوں شعبوں میں آڈٹ کے پیشے، فنانشل ایڈوائزری، مینجمینٹ کنسلٹنسی، بزنس، کامرس اور انڈسٹری میں 50 سال کا پیشہ ورانہ تجربہ رکھتے ہیں۔
اسحاق ڈار نے سنہ 1970 میں انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس ان انگلینڈ اینڈ ویلز (آئی سی اے ای ڈبلیو) کے ساتھ بطور ٹرینی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ سنہ 1974 میں آئی سی اے ای ڈبلیو اور انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان (آئی سی اے پی) کے ایسوسی ایٹ ممبر بن گئے۔
انہوں نے سنہ 1980 میں آئی سی اے ای ڈبلیو اور 1984 میں آئی سی اے پی کی فیلوشپ حاصل کی۔ اس کے بعد وہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فنانس اکاؤنٹنٹس آف پاکستان کے فیلو ممبر  بھی بن گئے۔ جنوری 2012 میں انہیں آئی سی اے ای ڈبلیو کی تاحیات رکنیت دی گئی۔
1974-76 کے دوران لندن میں ایک برطانوی ٹیکسٹائل گروپ کے ڈائریکٹر فنانس کے طور پر کام کرنے کے بعد اسحاق ڈار نے 1976 میں حکومت لیبیا کے آڈیٹر جنرل ڈیپارٹمنٹ میں بطور سینیئر آڈیٹر شامل ہوئے۔
دسمبر 1977 میں پاکستان واپس آنے کے بعد وہ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس فرم میں نیشنل پارٹنر بن گئے۔ سنہ 1980 میں وہ پاکستان، لیبیا، ایران، عراق اور سعودی عرب میں کام کرنے والی ایک ملٹی نیشنل کنسٹرکشن کمپنی کے فنانشل ایڈوائزر بن گئے۔
سنہ 1989 سے 1997 تک (سوائے اس کے کہ جب وہ وزیر رہے) اسحاق ڈار نے پاکستان میں مختلف غیرملکی مالیاتی اداروں میں بطور چیئرمین، چیف ایگزیکٹو اور ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔

نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو اسحاق ڈار ان کی معاشی ٹیم کے سربراہ کے طور پر تیسری مرتبہ وزیر خزانہ بن گئے۔ (فوٹو: اے پی)

سنہ 1999 میں پرویز مشرف کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد وہ بیرون ملک چلے گئے اور فروری 2002 سے مارچ 2008 تک انہوں نے متحدہ عرب امارات کے حکمراں خاندان کے مالیاتی مشیر کے طور پر کام کیا۔ وہ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔

بطور پارلیمنٹیرین

سینیٹر اسحاق ڈار گزشتہ 28 سالوں سے پارلیمنٹیرین رہے ہیں۔ وہ چوتھی مرتبہ ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ سنہ 1993 سے 1996 اور سنہ 1997 سے 1999 تک دو بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس کے بعد مسلسل چار بار سینیٹر منتخب ہوئے اور سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر بھی رہے۔ 
اسحاق ڈار نے پاکستان انویسٹمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر پہلا عوامی عہدہ (1992-1993) میں سنبھالا۔ سنہ 1997 اور 98 کے درمیان وہ وفاقی وزیر برائے تجارت و سرمایہ کاری رہے۔ وہ سنہ 1998 سے 1999 تک وفاقی وزیر خزانہ، اقتصادی امور اور پھر سنہ 2008 میں بھی کچھ عرصہ کے لیے وزیر خزنہ بنے۔ 
سنہ 2013 میں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو اسحاق ڈار ان کی معاشی ٹیم کے سربراہ کے طور پر تیسری مرتبہ وزیر خزانہ بن گئے اور چار سال تک وزیر خزانہ رہے۔ نواز شریف کی عدم موجودگی میں وہ ڈی فیکٹو وزیراعظم بھی کہلاتے تھے۔ 
اسحاق ڈار نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے لیے پنجاب حکومت کی کمیٹی کے کنوینیئر کے طور پر خدمات بھی انجام دیں۔ وہ آئینی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے رکن بھی رہے جس نے 18ویں، 19ویں اور 20ویں آئینی ترامیم کو حتمی شکل دی تھی۔

سنہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے بعد اسحاق ڈار حلف اٹھانے کے لیے ملک واپس نہ آئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وہ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ 
اسحاق ڈار سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے چیئرمین کے علاوہ متعدد قائمہ کمیٹیوں جن میں فنانس، ریونیو، اقتصادی امور، شماریات اور منصوبہ بندی و ترقی، تجارت اور سرمایہ کاری شامل ہیں، کے رکن بھی رہے ہیں۔
وہ سینیٹ کی فنانس کمیٹی، سینیٹ ایمپلائز ویلفیئر فنڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمانی سروسز (پی آئی پی ایس) کے بورڈ آف گورنرز کے رکن بھی رہے ہیں۔ ان کی پارلیمانی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں سنہ 2011 میں نشان امتیاز (پاکستانی شہریوں کے لیے اعلیٰ ترین سول اعزاز) سے نوازا۔

اسحاق ڈار کی پہچان ایک ٹیکنوکریٹ سیاستدان کے طور پر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے بعد اسحاق ڈار حلف اٹھانے کے لیے ملک واپس نہ آئے۔ سپریم کورٹ میں دائر ایک درخواست کے نتیجے میں عدالت نے ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا جو جنوری 2022 میں درخواست واپس لینے پر بحال ہو گیا۔
اس دوران اسحاق ڈار کی نشست خالی قرار دینے کے لیے الیکشن کمیشن میں درخواست بھی دائر کی گئی، جس کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز محفوظ کیا تھا۔

شیئر: