جرمنی کا پاکستان پر جبری بے دخل کیے گئے 200 افغان باشندوں کو واپس آنے دینے پر زور
پاکستان نے پہلی بار 2023 میں افغان شہریوں کی ملک بدری کی مہم شروع کی تھی۔ (فائل فوٹو: اے اایف پی)
جرمن حکومت نے پیر کے روز کہا کہ 200 سے زائد ایسے افغان شہری، جنہیں جرمنی میں پناہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، کو پاکستان کی جانب سے بے دخل کرکے واپس افغانستان بھیج دیا گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان جوزف ہنٹرزیر نے بتایا کہ حکومت اسلام آباد پر زور دے رہی ہے کہ وہ ان افغانوں کو واپس پاکستان میں داخلے کی اجازت دے۔
یہ افغان باشندے اُن افراد کے گروپ کا حصہ ہیں جنہیں جرمنی میں پناہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن اب وہ چانسلر فریڈرش مرز کی سخت امیگریشن پالیسی اور پاکستان کی جانب سے افغان باشندوں کی ملک بدری کی مہم کے بیچ پھنس گئے ہیں۔
ہنٹرزیر نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستانی پولیس نے حالیہ دنوں میں تقریباً 450 افغان شہریوں کو گرفتار کیا، جنہیں طالبان سے خطرہ کے پیش نظر جرمنی کے خصوصی پروگرام کے تحت پناہ کی پیش کش کی گئی تھی۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ دستیاب معلومات کے مطابق ان میں سے 211 افراد کوافغانستان واپس بھیج دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 245 افراد کو ان کی مجوزہ ملک بدری سے قبل پاکستانی کیمپوں سے جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم پاکستان سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ ان افراد کی واپسی کو ممکن بنایا جا سکے جنہیں پہلے ہی افغانستان بھیجا جا چکا ہے۔‘
گزشتہ ہفتے، جرمنی کی دو انسانی حقوق کی تنظیموں نے دو وفاقی وزیروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی۔ ان پر ان افراد کو ’تنہا چھوڑنے اور امداد فراہم نہ کرنے‘ کا الزام عائد کیا جو جرمن ویزے کے منتظر تھے۔
یہ خصوصی پروگرام سابق چانسلر اولاف شولز کی حکومت نے 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد شروع کیا تھا، تاکہ اُن افغان شہریوں اور ان کے اہلِ خانہ کو تحفظ دیا جا سکے جنہوں نے جرمن اداروں کے ساتھ کام کیا تھا۔
یہ پروگرام ان افراد پر بھی لاگو ہوتا تھا جنہیں طالبان سے شدید خطرات لاحق تھے، جیسے صحافی، انسانی حقوق کے کارکنان، وغیرہ۔
تاہم، مئی میں فریڈرش مرز کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سخت امیگریشن پالیسی کے تحت یہ پروگرام معطل کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں تقریباً 2,000 افغان شہری پاکستان میں جرمن ویزے کے انتظار میں پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے پہلی بار 2023 میں افغان شہریوں کی ملک بدری کی مہم شروع کی تھی، اور اپریل 2025 میں اس میں شدت لاتے ہوئے لاکھوں افغان باشندوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کر دیے تھے، اور ملک نہ چھوڑنے والوں کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
’ایئر برج کابل‘ نامی امدادی تنظیم سے وابستہ ایوا بائر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ملک بدر کیے گئے افراد اس وقت ’انتہائی نازک صورتحال‘ سے دوچار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب بھی تقریباً 350 افراد، جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جنہیں حالیہ دنوں میں کیمپوں سے رہا کیا گیا، ملک بدری کے خطرے سے دوچار ہیں۔
ایوا نے مزید کہا کہ ’مئی سے ویزا کے عمل کو منجمد کر دیا گیا ہے، اور تب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘
جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام اب بھی نظرثانی کے عمل میں ہے، حالانکہ گزشتہ ماہ ایک عدالت نے قرار دیا تھا کہ حکومت پر قانونی طور پر لازم ہے کہ وہ ان تسلیم شدہ افراد کو ویزا فراہم کرے۔
جرمن وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے پیر کو کہا کہ ہر شخص کے لیے انفرادی جائزہ لیا جا رہا ہے، جس کے بعد ممکنہ طور پر سکیورٹی سکریننگ بھی کی جائے گی۔