Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا تحقیقات میں معاونت کے لیے نیب کے دفاتر جانے سے انکار

آڈیٹر جنرل پاکستان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم کے ساتھ۔ فائل فوٹو: اے پی پی
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے مستقبل میں کسی بھی معاملے پر نیب کی معاونت کے لیے نیب دفتر جانے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب مالی معاملات کی تحقیقات کے دوران ہمارے افسران کو معاونت کے لیے بلاتا ہے تو ان کے بھی ایسے ہی سمن جاری کرتا ہے جیسے کسی ملزم کے جاری کیے جاتے ہیں۔  
تفصیلات کے مطابق پاکستان انڈسٹریل کارپوریشن کی جانب سے سرگودھا میں 800 کنال زمین کی خریداری کی خرد برد میں ملوث افسران کا معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں زیر بحث تھا۔ پی اے سی کو بتایا گیا کہ ایف آئی اے میں معاملہ زیر التوا ہے لیکن کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود افسران کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکی۔ جس پر کمیٹی کی جانب سے یہ تجویز دی گئی کہ کیوں نہ اس معاملے کی تحقیقات نیب کے سپرد کر دی جائیں۔  
اس پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان محمد اجمل گوندل نے پی اے سی کو بتایا کہ ایف آئی اے اس کیس پر کافی کام کر چکا ہے اور اب چالان پیش ہونا باقی ہے اس لیے یہ معاملہ ان کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔ 
انھوں نے بتایا کہ ’نیب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہمیں بلاتے تو اپنی معاونت کے لیے ہیں لیکن اپنے آرڈیننس کے تحت ہمیں بھی وہی سمن جاری کر دیتے ہیں جو کسی ملزم کے لیے جاری کرتے ہیں۔ جوں ہی ہمیں وہ سمن موصول ہوتا ہے تو دوسری جانب سے میڈیا پر خبریں نشر ہو جاتی ہیں کہ نیب نے فلاں افسر کو طلب کر لیا۔‘
آڈیٹر جنرل آفس کے ایک افسر نے بتایا کہ ’میری تیار کردہ آڈٹ رپورٹ پر نیب کسی محکمے کے خلاف تحقیقات کر رہا تھا تو اس میں میرے ہی سمن جاری کر دیے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ ہمارے پاس کسی کو بھی بلانے کا ایک ہی قانونی طریقہ موجود ہے۔‘
افسر نے بتایا کہ حیران کن بات یہ کہ معاونت کے لیے بلاتے ہیں اور سمن کے آخر پر لکھا ہوتا ہے کہ نہ آنے کی صورت میں فلاں آرٹیکل کے تحت آپ کے خلاف کارروائی ہوگی۔  
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے نیب سے کہا ہے کہ اس ادارے کا قیام آمرانہ دور میں ایک آرڈینینس کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔ اب دنیا بدل چکی ہے اس لیے اگر آپ کسی سے مدد لینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سمن جاری کرنے کے بجائے خط لکھیں بلکہ درخواست لکھیں کہ وہ آئے اور آپ کی معاونت کرے۔‘

نیب حکام کے مطابق اب ملزمان اور گواہوں کو الگ الگ سمن جاری کیے جاتے ہیں۔ فائل فوٹو

آڈیٹر جنرل آف پاکستان محمد اجمل گوندل کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر نیب ہم سے معاونت طلب کرے گا تب بھی ہم ان کے دفتر نہیں جائیں گے کیونکہ ان کے دفتر جائیں تو یہ گیٹ پر شناختی کارڈ اور موبائل فون جمع کر لیتے ہیں۔‘
آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ نیب کی معاونت کے بعد اگر کسی افسر نے واپس جانا ہو تو بھی گیٹ پر موبائل اور شناختی کارڈ اس وقت تک واپس نہیں کیا جاتا جب تک اندر سے اس افسر کا فون نہ آ جائے جس نے طلبی کے سمن جاری کیے ہوتے ہیں۔ یہ ایک تضحیک آمیز عمل ہے۔  
رابطہ کرنے پر نیب حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ معاملہ اس سے پہلے سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث آیا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اب دو طرح کے سمن جاری کیے جاتے ہیں۔ ایک سمن ملزمان کے لیے جبکہ دوسرا گواہان کے لیے ہوتا ہے۔  

شیئر: