Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوانتاناموبے میں طویل عرصے تک قید رہنے والا پاکستانی رہا

سیف اللہ پراچہ کو 2003 میں بنکاک سے حراست میں لیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
طویل عرصے تک امریکہ کی گوانتاموبے جیل میں قید رہنے والے پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ رہائی کے بعد پاکستان پہنچ گئے ہیں۔
سنیچر کو وزارت خارجہ کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ سیف اللہ پراچہ کی وطن واپسی کے لیے دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کے درمیان طویل طریقہ کار کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے مکمل کیا۔
’ہمیں خوشی ہے بیرون ملک قید پاکستانی شہری بالآخر اپنے خاندان سے مل گئے ہیں۔‘
 ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ریکارڈ کے مطابق سیف اللہ پراچہ 26 سال کی عمر میں تعلیم کی غرض سے امریکہ گئے تھے اور کاروبار شروع کرنے کے لیے پاکستان واپسی سے قبل تقریباً 10 سال تک اپنے رشتہ داروں کے پاس مقیم رہے۔
انہوں نے پانچ جولائی 2003 کو ایک کاروباری میٹنگ کے لیے تھائی لینڈ جانا تھا۔ انہوں نے روانگی سے قبل اپنی بیٹی کو کال کر کے کہا تھا کہ وہ تھوڑی دیر بعد تھائی لینڈ کے لیے روانہ ہوں گے تاہم وہ اپنی میٹنگ میں نہیں پہنچ سکے۔
بعد ازاں انہوں نے جنگجویانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی تحقیقات کرنے والے ٹربیونل کو گوانتاناموبے میں بتایا تھا کہ جب وہ چھ جولائی کو بنکاک پہنچے وہاں پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

سیف اللہ پراچہ کو تقریباً ایک سال تک بگرام میں بھی رکھا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

سیف اللہ پراچہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے بعد ان کے سر پر کپڑا لپیٹ کر گاڑی میں ڈالا گیا اور کسی نامعلوم مقام پر لے جایا گیا جہاں ان کو چند روز تک رکھا گیا اس دوران ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہی پیروں میں بیڑیاں ڈالی گئیں جبکہ کانوں کو بھی بند رکھا گیا۔
اس کے بعد امریکی حکام نے انہیں افغانستان کے بگرام ایئربیس منتقل کیا جہاں وہ تقریباً ایک سال تک رہے اور ستمبر 2004 میں انہیں گوانتاناموبے منتقل کر دیا گیا۔
ایک ماہ بعد نیوز رپورٹس سے ان کے خاندان والوں کو پتہ چلا کہ انہیں امریکی حکام نے حراست میں لیا ہے اس کے چند روز بعد انہیں انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی آف ریڈ کراس کی وساطت سے خط موصول ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کو بگرام میں رکھا گیا ہے۔

سیف اللہ پراچہ کو ستمبر 2004 میں گوانتاناموبے جیل منتقل کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

سیف اللہ پراچہ پر الزامات

امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے اور ان کے اسامہ بن لادن سمیت دیگر عہدیداروں سے رابطے رہے۔
سیف اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو ایک عوامی ملاقات میں دیکھا تھا اور صرف اتنی بات کی تھی کہ کیا وہ ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیں گے؟
انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ انہوں نے ایسے پاکستانی شہریوں کو مدد فراہم کی تھی جن کا تعلق القاعدہ سے تھا تاہم انہیں اس بات کا علم نہیں تھا۔

شیئر: