مقدمے میں نامزد کیے گئے دیگر ملزمان یوسف، زاہدہ اور رشید کو بری کر دیا گیا۔
فیصلہ سنائے جانے کے وقت تمام ملزمان، اُن کے وکلا اور امریکی ایف بی آئی کی ٹیم بھی عدالت میں موجود تھی۔
وجیہ سواتی کیس: کب کیا ہوا؟
پاکستانی نژاد امریکی شہری وجیہہ سواتی کے اغوا کا مقدمہ گزشتہ سال دو نومبر کو تھانہ مورگاہ میں ان کے بیٹے کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق ’وجیہہ سواتی 16 اکتوبر 2021 کو برطانیہ سے اپنے بھانجے کے ہمراہ اپنے سابقہ شوہر رضوان حبیب سے کچھ معاملات طے کرنے اور پراپرٹی کی سیٹلمنٹ کی غرض سے پاکستان آئیں۔ انہیں 22 اکتوبر کو واپس برطانیہ لوٹنا تھا۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’رضوان حبیب وجیہہ سواتی اور ان کے بھانجے کو ڈی ایچ اے راولپنڈی کے ایک گھر لے کر گئے اور انہیں بند کر دیا۔ جب بھانجے کی آنکھ کھلی تو وجیہہ سواتی اور ان کے سابق شوہر وہاں موجود نہیں تھے۔‘
جب کہ ان کے بھانجے کو بھی ملازموں نے گھر میں لاک کر رکھا تھا لیکن وہ اپنی جان بچاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
ایف آئی آر کے مطابق ’وجیہہ سواتی کے پاس ان کے بھانجے کا پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ بھی تھا تاہم وہ ایمرجنسی سفری دستاویزات بنا کر 22 اکتوبر کو پاکستان چھوڑ کر برطانیہ لوٹنے میں کامیاب ہو گئے۔‘
بیٹے کی مدعیت میں درج کیے گئے مقدمے میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ’ان کی والدہ کو اغوا کرنے میں ان کے سابق شوہر ملوث ہیں جبکہ انہیں رضوان حبیب کی جانب سے قتل کی دھمکیاں بھی موصول ہوئی ہیں۔‘
وجیہہ سواتی اپنے تین بچوں کے ہمراہ امریکہ میں رہائش پذیر تھیں جبکہ ان کے پہلے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔
راولپنڈی پولیس نے اردو نیوز کو تصدیق کی تھی کہ پاکستانی نژاد امریکی شہری وجیہہ سواتی جنھیں اکتوبر میں اغوا کیا گیا تھا، کو اغوا کے فوراً بعد اسی دن قتل کر دیا گیا تھا۔
ایس پی سٹی رانا عبدالوہاب نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ سابق شوہر رضوان حبیب نے وجیہہ سواتی کے قتل کا اعتراف کرلیا جبکہ ملزم نے جرم کا اعتراف پولیس تفتیش کے دوران کیا۔
ان کے مطابق وجیہہ سواتی کو 16 اکتوبر کو ہی قتل کردیا گیا تھا۔ ملزم رضوان نے اس کی لاش ہنگو میں دفن کی جبکہ ملزم رضوان کے والد کو بھی قتل میں مدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔