Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ کے خلاف تحقیقات، جنگی جرائم کے ماہر کی خدمات حاصل کر لی گئیں

سابق صدر نے سپیشل کاؤنسل کی تعیناتی پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کے محکمہ انصاف نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تحقیقات کے لیے جنگی جرائم کے پراسیکیوٹر کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹر کے مطابق امریکہ کے اٹارنی جنرل میریک گارلینڈ نے جیک سمتھ کو سپیشل کاؤنسل نامزد کیا گیا ہے جو کہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
جیک سمتھ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان معاملات کا جائزہ لینے کے بعد محکمہ انصاف کو رپورٹ پیش کریں گے جو 2020 کے انتخابات کو الٹنے کی کوششوں اور حساس دستاویزات کے استعمال سے متعلق ہیں۔
امریکہ محکمہ انصاف کی جانب سے جیک سمتھ کے نام کا اعلان سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے تین روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
سپیشل کاؤنسلز کو بعض اوقات سیاسی اور حساس معاملات کی تحقیقات کے لیے تعینات کیا جاتا ہے اور وہ جو خدمات انجام دیتے ہیں ان میں وہ محکمہ انصاف کی قیادت کے پابند نہیں ہوتے بلکہ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔
نامزدگی کے بعد جیک سمتھ نے ایک بیان میں کہا کہ ’میری نگرانی میں تحقیقات کا سلسلہ روکا جائے گا نہ اس کی رفتار کم کی جائے گی۔‘
ان کے مطابق ’میں آزادانہ طور پر فیصلے کروں گا تحقیقات کو آگے بڑھاؤں گا تاکہ حقائق اور قانون کے مطابق نتیجہ سامنے آئے۔‘
جیک سمتھ ان تمام معاملات کا جائزہ لیں گے اور تحقیقات کریں گے جو سرکاری اور حساس دستاویز سے متعلق ہیں۔ اس بات کا پتہ لگایا جائے گا کہ پچھلے سال ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد ان کا کیسے استعمال کیا گیا اور 2020 کے الیکشن کے بعد پرامن منتقلی اقتدار کی راہ میں رکاوٹ کیسے ڈالی گئی۔
اٹارنی جنرل میریک گارلینڈ کا کہنا ہے کہ ’ایسے وقت میں سپشل کاؤنسل کی تعیناتی ایک درست قدم ہے۔‘
دوسری جانب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تعیناتی کو مشکوک قرار دیا ہے۔
انہوں نے فلوریڈا میں اپنی پارٹی کے کارکنوں سے گفتگو میں کہا کہ ’طاقت کے غلط استعمال کا یہ ایک خوفناک موڑ ہے، جس کا سلسلہ طویل عرصہ قبل شروع ہوا تھا۔‘
سپشیل کاؤنسل کی تعیناتی سے متعلق صدر جو بائیڈن سے بھی صحافیوں نے چبھتے ہوئے سوالات پوچھے تاہم انہوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔
اسی طرح وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان کی جانب سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا گیا ہے کہ اس (وائٹ ہاؤس) کا اس تعیناتی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

شیئر: