Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین میں چھ ماہ بعد کورونا سے پہلی ہلاکت، سخت حفاظتی اقدامات کا نفاذ

چین میں اتوار کو24 ہزار سے زائد کورونا کےنئے کیسز رپورٹ ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
چین نے اتوار کو چھ ماہ بعد کورونا سے پہلی ہلاکت کا اعلان کیا ہے جس کے بعد بیجنگ سمیت ملک بھر میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سخت  اقدامات نافذ کر دیے گئے ہیں۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چین میں اتوار کو24 ہزار سے زائد کورونا کےنئے کیسز رپورٹ ہوئے  جن میں سے اکثریت ایسے کیسز کی ہے جن کی علامات ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔
چین کے دارلحکومت بیجنگ میں رہائیشیوں کو تنبیح کی گئی ہے کہ وہ شہر کے مختلف اضلاع کے درمیان سفر نہ کریں۔ ریستوران، دکانیں، شاپنگ مالز اور آپارٹمنٹس بلاکس کی ایک کثیر تعداد بند ہے یا آئیسولیٹڈ ہے۔
انٹرنیٹ صارفین نے زیرو کووڈ پالیسی پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور ژینگ زو حکام کو عوام کی مدد کرنے میں ناکامی کی وجہ سے سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
بیجنگ کے 87 سالہ بزرگ کی موت 26 مئی کے بعد پہلی موت تھی جو قومی صحت کمیشن کی جانب سے ریورٹ کی گئی جس کے بعد اموات کی مجموعی تعداد 5227 ہو گئی۔ اس سے قبل شنگھائی میں اموات ریکارڈ کی گئی تھی جس نے موسمِ گرما کے دوران کیسز میں بے حد اضافہ کیا تھا،
جبکہ چین کی مجموعی طور پر ویکسینیشن کی شرح بانوے فیصد ہے جنہیں کم از کم ایک ڈوز لگائی جا چکی ہے۔
مگر 80 سال سے زائد عمر والے لوگوں میں یہ تعداد کافی کم ہے۔ کمیشن نے متوفی لوگوں کی ویکسینیشن کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں۔
اور اسے ایک وجہ سمجھا جا رہا ہے کہ کیوں چین نے ابھی تک اپنی زیادہ تر سرحدیں بند رکھیں ہیں اور وہ کس طرح اپنی زیرو کووڈ پالیسی پر کھڑا ہے جو زندگی پر بہت سے اثرات کے باوجود لاک ڈاؤن، قرنطینہ، کیس ٹریسنگ اور بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کے ذریعے انفیکشن کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ژنگ زو کے مقامی شہر نے اتوار کو کہا ہے کہ اب تین سال سے  کم عمر بچوں کے منفی کورونا ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ژنگ زو سٹی گورنمنٹ  نے یہ اعلان بچے کی موت پر کیا جس کی موت کا سبب اینٹی وائرس کا حد سے زیادہ استعمال بتایا گیا ہے۔ ژنگ زو کے ایک ہوٹل میں قرنطینہ میں موجود ایک چار ماہ کی بچی الٹی اور ڈائیریا میں مبتلا ہونے کے بعد دم توڑ گئی۔

ژنگ زو میں قرنطینہ میں موجود ایک بچی الٹی اور ڈائیریا میں مبتلا ہونے کے بعد دم توڑ گئی (فوٹو: اے ایف پی)

ریورٹ بتاتی ہے کہ اس کے والد کو مدد لینے کے لیے 11 گھنٹے لگے کیونکہ  ہیلتھ کئیر ورکرز نے مدد سے انکار کر دیا تھا اور اسے سو کلومیٹر دور ہسپتال بجھوانا پڑا تھا۔
یہ سب شمال مغرب میں کاربن مونو آکسائیڈ زہر سے تین سالہ لڑکے کی موت کے بعد شروع ہوا۔ اس کے والد نے  لانژو شہر میں صحت کے کارکنوں پر الزام لگایا جنہوں نے اس کے بیٹے کو ہسپتال لے جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
دیگر معاملات میں ایک حاملہ خاتون کا کیس شامل ہے جس کا اسقاطِ حمل ہو گیا جب اسے شمال مغربی شہر زیان کے ہسپتال میں  داخلے کی اجازت نہیں ملی اور اسے گھنٹوں باہر سردی میں بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔
اس طرح کا ہر معاملہ حکمران کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے نئے وعدے لاتا ہے۔
حال ہی میں پچھلے ہفتے اعلان ہوا کہ قرنطینہ میں رہنے والے یا منفی ٹیسٹ کے نتائج نہ دکھانے والے افراد کو ہنگامی مدد حاصل کرنے سے ہرگز نہیں روکا جائے گا۔

ماہرین کے مطابق چینی معیشت پر اس وبا کے اثرات بڑھ رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے باوجود پارٹی نے اکثر خود کو مقامی عہدیداروں کی طرف سے لگائے گئے سخت اور اکثر غیر مجاز اقدامات پر  قابومیں ناکام پایا ہے۔ انہیں  یہ ڈر ہے کہ  وبا پھیلنے کی صورت انہیں اپنی ملازمتوں سے محروم کر دیا جائے گا اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس عالمی وبأ کو تقریبا  تینسال ہو گئے ہیں جہاں باقی دنیا مکمل طور پر بحال ہوچکی ہے وہیں  چینی معیشت پر اس کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔
 بیجنگ نے زیادہ تر اپنے بارڈرز بند رکھیں ہیں اور ملک کے اندر سفر کی بھی حوصلہ شکنی کی ہے۔

شیئر: