Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنرل (ر) قمر باجوہ کے ’چیلنجز اور تنازعات میں گھِرے‘ چھ سال

جنرل (ر) قمر باجوہ کئی اہم قومی، علاقائی اور عالمی واقعات کا حصہ رہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاک فوج کے 16ویں آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ چھ برس تک عہدے پر رہنے کے بعد آج منگل کو ریٹائر ہوگئے ہیں۔
’باجوہ ڈاکٹرائن‘ سے شہرت پانے والے جنرل (ر) قمر باجوہ کو چھ برس میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے کسی ایک پارٹی کی مخالفت اور حمایت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
ان چھ برسوں میں انہوں نے اہم قومی اور عالمی فورمز پر پاکستان کے حوالے سے کردار ادا کیا اور وہ کئی اہم قومی، علاقائی اور عالمی واقعات کا بھی حصہ رہے۔
باجوہ ڈاکٹرائن:
جنرل (ر) راحیل شریف کے دور میں ہونے والے فوجی آپریشنز اور پھر ملک کو درپیش سکیورٹی اور امن و امان کی بحالی کے حوالے سے پاک فوج نے ایک لائحہ عمل اور حکمت عملی مرتب کی تھی۔
اس حکمت علی کو مرتب کرنے کا کریڈٹ جنرل (ر) قمر باجوہ کو دیا گیا اور اسے ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کا نام دیا گیا۔  
اسی نظریے کی بنیاد پر انہیں ایک غیر سیاسی جرنیل سمجھا جاتا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ نومبر 2016 میں وزیراعظم نواز شریف نے انھیں آرمی چیف تعینات کیا۔ 
مسلم لیگ ن اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ:
ان کی تعیناتی کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان میں سیاسی صورتحال میں اس وقت ہلچل پیدا ہوئی جب بین الاقوامی صحافیوں کی ایک تنظیم کی جانب سے پانامہ پیپرز کا معاملہ سامنے آیا، جس کے بعد نواز شریف کو تاحیات نااہل کیا گیا اور انھیں دو مقدمات میں الگ الگ سزائیں سنا کر جیل بھجوا دیا گیا۔  
یہی نہیں بلکہ معیشت بحالی اور ترقی کے حکومتی دعووں کے باجود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں کراچی میں معیشت پر سیمینار ہوا جنہوں نے معاشی صورت حال کو ’غیرتسلّی بخش‘ قرار دیا۔

عمران خان کی حکومت کے اولین ساڑھے تین چار سال سول ملٹری تعلقات کی ’عمدہ مثال‘ سمجھے جاتے تھے (فوٹو: اے پی پی)

نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی وزیراعظم کے منصب پر فائز تھے کہ تحریک لبیک نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دے دیا۔ حکومت نے دھرنا مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ٹھانی تو آرمی چیف نے وزیراعظم کو فون کرکے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا کہا۔
اس وقت ان سے منسوب ایک بیان بھی میڈیا کی زینت بنا کہ ’فوج اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائے گی۔‘ 
تحریک انصاف اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ :
2018 کے عام انتخابات ہوئے تو نواز شریف انتخابات سے چند روز قبل مریم نواز کے ہمراہ جیل جانے کے لیے لندن سے لاہور پہنچے۔
نگران حکومت تھی لیکن ن لیگی ورکرز اور امیدواران پر ملک بھر میں مقدمات قائم ہوئے۔ ن لیگ اور دیگر جماعتوں کی جانب سے فوج بالخصوص جنرل قمر باجوہ پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے انتخابات میں تمام جماعتوں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا نہیں کی۔‘
یہی وجہ تھی کہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو بلاول بھٹو زرداری نے ’سیلیکٹڈ‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔  
عمران خان کی حکومت کے اولین ساڑھے تین چار سال سول ملٹری تعلقات کی ’عمدہ مثال‘ سمجھے جاتے تھے۔ ایک صفحے پر ہونے کی باتیں کی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے نواز شریف نے پہلی مرتبہ جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید کے نام لے کر ان پر سیاسی انجنیئرنگ اور اپنے خلاف مقدمات میں کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا۔  
اس الزام کے بعد کراچی میں جلسے کے لیے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کراچی گئے تو ان کے ہوٹل کمرے کا دروازہ توڑ کر کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا گیا جسے بعد ازاں ’جذباتی ردعمل‘ قرار دیا گیا۔

نواز شریف نے جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید کے نام لے کر ان پر سیاسی انجنیئرنگ کا الزام عائد کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

ابھینندن کا پاکستان میں ’ٹی از فنٹاسٹک‘ کہنا
فروری 2019 میں انڈیا کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئی تو اگلے ہی روز پاکستان ایئرفورس نے انڈین ایئرلائن کا طیارہ مار گرایا اور پائلٹ ابھینندن کو تحویل میں لے لیا۔
ابھینندن کو پاکستانی فوج کے میس میں چائے پلائے گئی اور سوشل میڈیا پر ’ٹی از فینٹاسٹک‘ کے چرچے رہے۔
ایک صفحے پر ہونے کے دعوے پر شکوک و شبہات:
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ عمران خان حکومت اور جنرل باجوہ کے باہمی تعلقات کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ سویلین اور ملٹری قیادت ایک صفحے پر ہے۔ تاہم سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ بیانات میں اس کا ذکر کچھ یوں کیا کہ ’وزیراعظم بے اختیار اور سارے فیصلے طاقتور ادارہ کرتا تھا۔‘
عمران خان کے بقول ’جنرل باجوہ کرپشن کو بُرا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ’عمران صاحب معیشت کی بہتری پر توجہ دیں اور احتساب کو بھول جائیں۔‘  
ایک صفحے پر ہونے کے دعوے میں مزید دراڑ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی تعیناتی اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے تبادلے کی وجہ سے پڑی جس کے بارے میں بی سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے کئی ساتھی بیانات دے چکے ہیں۔ 
تحریک عدم اعتماد اور عمران خان کے الزامات
اس تنازعے کے بعد اس وقت کے اپوزیشن اتحاد نے نئے سرے سے صف بندی کی اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو گھر بھیج دیا۔

عمران خان نے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’وزیراعظم بے اختیار اور سارے فیصلے طاقتور ادارہ کرتا تھا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان نے اسے پہلے امریکی سازش اور اس میں اپوزیشن جماعتوں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کو اس سازش کو نہ روکنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
اس سارے معاملے کے جواب میں جب فوج کی جانب سے یہ کہا گیا کہ وہ نیوٹرل ہے تو عمران خان نے ’نیوٹرل جانور ہوتا ہے‘ کا بیان داغا۔ انہوں نے اپنے جلسوں میں متعدد بار میر جعفر اور میر صادق کے القابات بھی دہرائے۔
پاکستان کے سینیئر صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل کے بعد جب ڈی جی آئی ایس لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم پہلی بار میڈیا کے سامنے آئے تو انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ’عمران خان نے جنرل قمر باجوہ کو تاحیات ایکسٹینشن کی پیشکش کی تھی جس کی کسی حد تک تصدیق عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی کی۔
سیاست سے کنارہ کشی
جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے بحیثیت آرمی چیف اپنا آخری خطاب چند روز قبل یوم شہداء کی تقریب کے موقع پر کیا جس میں انھوں نے سقوطِ ڈھاکہ کو فوجی کے بجائے سیاسی غلطی قرار دیا۔
امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس بیان پر پیپلز پارٹی کی طرف سے کوئی ردعمل آئے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
جنرل (ر) قمر باجوہ نے اپنے خطاب میں اعتراف کیا کہ ماضی میں پاک فوج اور اسٹیبلشمنٹ سیاست میں کردار ادا کرتی رہی ہے لیکن اب سوچ بچار کے بعد ادارے نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مزید سیاست میں ملوث نہیں ہوگی بلکہ اپنا آئینی کردار ادا کرے گی۔

شیئر: