Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر، نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے؟  

اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے اساتذہ پر خود کش حملہ ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی
16 دسمبر 2014 کو دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول کو نشانہ بنایا تو سیاسی طور پر تقسیم ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں نے متفقہ طور پر دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا۔  
اس مقصد کے تحت ہنگامی بنیادوں پر 20 نکات پر مشتمل ایک نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا جسے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے متفقہ طور پر تسلیم کیا اور اس پر عمل درآمد کا آغاز ہوا۔  
اس کے نتیجے میں جہاں ملک میں دہشت گردی کی لہر پر قابو پایا گیا وہیں بعض شعبہ جات میں اصلاحات بھی عمل میں لائی گئیں۔
نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے قومی اور صوبائی سطح پر اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن کی سربراہی قومی سطح پر وزیراعظم جبکہ صوبائی سطح پر وزرائے اعلیٰ کرتے تھے۔ 
اب جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت پاکستان کے ساتھ فائر بندی کا معاہدہ ختم کرتے ہوئے ملک بھر میں کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے اور آئے روز ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ایسے میں ایک سوال پھر سر اٹھا رہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے اور اگر اس پر عمل در آمد کیا گیا تھا تو اس کے نتائج سامنے کیوں نہیں آ رہے؟  

’نیشنل ایکشن پلان اپنا وجود کھو چکا ہے‘

اس حوالے سے سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ قومی ایکشن پلان کے جن 20 نکات پر قومی سطح پر اتفاق رائے ہوا اب وہ نیشنل ایکشن پلان اپنا وجود کھو چکا ہے۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ 2020-21 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے 14 نکات تک محدود کر دیا تھا۔‘  

رواں سال پشاور کی ایک مسجد میں خود کش حملے میں 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق 2015 میں بننے والا نیشنل ایکشن پلان اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے تھا جبکہ 2021 میں کی گئی نظرثانی کی وجہ سے توجہ بیرونی خطرات کی طرف چلی گئی۔ اس وجہ سے سارا فوکس ہی تبدیل ہو گیا لیکن اگر اس پر بھی عمل درآمد ہو جاتا تو دہشت گردی کی موجودہ لہر کو روکا جا سکتا تھا۔  

’نیشنل ایکشن پلان کے تحت نیکٹا کو مضبوط بنانا تھا‘

عامر رانا نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی سے نمٹنے کے قومی ادارے نیکٹا کو مضبوط، فعال اور خود مختار بنانا تھا تاکہ وہ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے صوبوں کے ساتھ رابطے رکھے اور پالیسی سطح پر گائیڈ لائنز فراہم کر سکے۔
’لیکن نیکٹا ہر مرتبہ ایک نیا ادارہ بنانے کی تجویز دے دیتا ہے جس وجہ سے کنفیوژن پیدا ہوتی ہے۔ نیکٹا پالیسی ساز ادارہ ہے لیکن یہ ریسرچ ڈیٹا کو پروسیس کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ جو کام پانچ دس بندے کر سکتے تھے اس کے لیے نئے نئے سیکریٹیریٹ بنائے جا رہے ہیں اور وسائل کا ضیاع کیا جا رہا ہے لیکن عملی طور پر کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس وقت تحریک طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں تو نیکٹا نے ایک پالیسی بریف دیا ہے جس میں انھوں نے طالبان کی واپسی کے بارے میں بتایا لیکن اس بریف میں شامل تمام معلومات ثانوی ذرائع یعنی میڈیا کی خبروں سے لی گئی ہیں۔ اپنی پالیسی میں نیکٹا نے طالبان سے نمٹنے یا ان کی ممکنہ کارروائیوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔  
’قومی سطح پر جو اپیکس کمیٹیاں بنائی گئی تھیں وہ ابتدا میں بہت متحرک تھیں لیکن پالیسی پر نظرثانی کے بعد ان کا وجود بھی ختم ہوچکا ہے جبکہ نیشنل ایکشن پلان پر بڑی حد تک عمل درآمد کرنا ہی صوبوں نے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب کہیں پر نیشنل ایکشن پلان کا وجود نظر نہیں آتا۔‘ 

حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات بڑھنے پر سوات میں مظاہرے بھی ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عسکری امور کے ماہرین بھی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بڑی قربانیاں دی گئیں۔ ضرب عضب اور ردالفساد جیسے بڑے بڑے آپریشنز کیے گئے جس کی وجہ سے دہشت گردی کی وارداتوں اور دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ ہوا لیکن اس کے پس منظر میں جو کام کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا ان پر کام نہیں ہوا۔  

’سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اختلافات کے باعث اصلاحات نہیں کر سکے‘

میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’نیشنل ایکشن پلان پر صرف زبانی جمع خرچ کیا گیا لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔‘  
ان کے مطابق جن چند نکات پر عمل درآمد ہوا اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں لیکن جن پر عمل نہیں ہوا اس کا نقصان بھی پورا ملک بھگت رہا ہے۔
’دہشت گردی کی ہینڈلنگ تو ٹھیک ہوئی لیکن لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلی لانے کے لیے مدارس میں اصلاحات کا فیصلہ کیا گیا تھا وہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اختلافات کے باعث نہیں ہو سکا۔ اسی طرح دہشت گردوں کو عدالتوں سے جو ریلیف مل جاتا تھا اس کے لیے عدالتی اصلاحات لائی جانی تھیں وہ بھی نہیں لائی جا سکیں۔‘  
میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے بتایا کہ دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں کے علاوہ ملک کی کسی عدالت نے سزا نہیں سنائی لیکن پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے 67 ملزمان کی سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔  
’نیشنل ایکشن پلان میں کہا گیا تھا کہ ملک میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کو پنپنے نہیں دیا جائے گا لیکن افغانستان کی موجودہ حکومت کے تعاون سے تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے اور انھیں ایک بار پھر اپنے پاؤں جمانے کا موقع دیا گیا۔‘  

پی ٹی آئی کی حکومت نے ایکشن پلان کو 14 نکات تک محدود کر دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

میجر جنرل اعجاز اعوان کے مطابق پاکستان سمیت دنیا کے کسی ملک نے افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم ہی نہیں کیا تو اس حکومت کے ساتھ سفارتکاری کیسے کر سکتے ہیں۔
’ان کے تعاون سے تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات اور اس حوالے سے کسی بھی ممکنہ معاہدے کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق ’جب قومی سطح پر اتفاق رائے سے بننے والے ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو پھر عسکری ادارے دہشت گردی کو اپنے طریقے سے ہینڈل کرتے ہیں جو ایک وقتی کارروائی ہوتی ہے لیکن اس عفریت کے مکمل خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد انتہائی ضروری ہے۔‘
16 دسمبر 2014 کے اے پی ایس سانحے کے بعد جنوری 2015 میں تشکیل پانے والے نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے (نیکٹا) کی اپنی رپورٹ کے مطابق پہلے چار سال میں 20 نکات میں سے چھ پر بالکل عمل درآمد نہیں ہوا۔ نیشنل ایکشن پلان کے نو نکات پر مکمل جبکہ پانچ پر تسلی بخش عمل کیا گیا۔

شیئر: