Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلیٰ پر عدم اعتماد، پنجاب میں آگے کیا ہونے جا رہا ہے؟

سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ پرویز الٰہی کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا مشکل ہو سکتا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سیاسی صورت حال نے پیر کی رات کئی ڈرامائی موڑ لیے ہیں۔ ایک طرف گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیراعلٰی پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیا ہے، جس کے تحت پنجاب اسمبلی کا اجلاس 21 دسمبر کو سہ پہر چار بجے طلب کیا گیا ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن نے وزیراعلٰی، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروا دی ہیں۔
یہ اقدامات ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے جمعہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق پنجاب کی اپوزیشن کے ان اقدامات نے پنجاب اسمبلی کی فوری تحلیل کے عمل کو روک دیا ہے۔
گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے وزیراعلٰی پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے تحریری طور پر کہا ہے کہ ’پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کافی دنوں سے یہ بات گردش کر رہی ہے کہ وزیراعلٰی چوہدری پرویز الٰہی اپنے پارٹی صدر چوہدری شجاعت حسین اور اپنی پارٹی کے اراکین کا اعتماد کھو چکے ہیں۔‘
’گذشتہ کچھ ہفتوں سے دونوں حکومتی اتحادی جماعتوں کے مابین سیاسی سٹریٹیجی، اسمبلی کی تحلیل، ترقیاتی سکیموں اور سرکاری افسروں کی ٹرانسفر کے حوالے سے سنجیدہ نوعیت کے اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔

گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے لکھا ہے کہ ’میں بطور گورنر اس بات پر متفق ہوں کہ وزیراعلٰی چوہدری پرویز الٰہی ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے اعتماد کا ووٹ لینے کے آرڈر میں مزید لکھا ہے کہ ’وزیراعلٰی نے ایک رکن پنجاب اسمبلی خیال احمد کاسترو کو کابینہ میں شامل کیا لیکن پی ٹی آئی چیئرمین نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا جس سے دونوں جماعتوں میں اختلافات صاف ظاہر ہیں۔ کابینہ کے ایک رکن سردار حسنین بہادر دریشک کی کابینہ اجلاس کے دوران تلخ کلامی ہوئی جس پر وہ مستعفی ہو گئے، یہ بھی اختلافات کا شاخسانہ ہے۔‘
آرڈر کے متن کے مطابق ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ’وزیراعلٰی چوہدری پرویز الہی نے چار دسمبر کو ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ وہ آئندہ مارچ تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔ وزیراعلٰی کا یہ بیان پی ٹی آئی کی پارٹی پالیسی کے خلاف تھا جس پر دو اراکین مستعفی بھی ہو گئے۔‘
’17 دسمبر کو وزیراعلٰی نے عمران خان کی جانب سے سابق آرمی چیف کے خلاف کمنٹس دینے پر انٹرویو میں عمران خان کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد میں بہت کم عددی فرق ہے۔ میں بطور گورنر اس بات پر متفق ہوں کہ وزیراعلٰی چوہدری پرویز الٰہی ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں اس لیے آئین کے آرٹیکل 130 (7) کے تحت میں بدھ 21 دسمبر کو سہ پہر چار بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرتا ہوں جس میں وزیراعلٰی اعتماد کا ووٹ لیں۔‘
اپوزیشن نے عدم اعتماد اس وقت جمع کروائی جب گورنرپنجاب وزیراعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا آرڈر کر چکے تھے۔ دوسرے لفظوں میں اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے بلائے گئے اجلاس سے پہلے اب پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے کیوںکہ آئین کے مطابق جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو جاتی ہے تو وزیراعلٰی کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن ختم ہو جاتا ہے۔

اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے بلائے گئے اجلاس سے پہلے اب پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی ان دنوں لاہور میں ہیں اور سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ پرویز الٰہی کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا مشکل ہو سکتا ہے۔
ان کی پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف اور آصف علی زرداری سے پچھلے دو روز میں ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اگر ق لیگ کا ایک رکن بھی چوہدری پرویز الٰہی کی ووٹنگ کے عمل میں شریک نہیں ہوتا تو وہ وزیراعلٰی نہیں رہیں گے۔
چوہدری پرویز الٰہی 186 ووٹوں سے وزیراعلٰی منتخب ہوئے تھے۔ عدم اعتماد پیش ہونے کی وجہ سے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی اجلاس کو چیئر نہیں کر سکیں گے۔ ان کی جگہ پینل آف چیئرمین یہ عمل مکمل کروائیں گے۔

شیئر: