Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تیل کی قیمت پر حد مقرر کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: روس

دنیا میں سعودی عرب کے بعد روس تیل کی برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے (فوٹو: روئٹرز)
روس نے مغربی ممالک کی جانب سے روسی تیل کی قیمت پر حد مقرر کرنے یعنی پرائس کیپ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس اور مغربی ممالک کے درمیان سرد جنگ کے دوران بھی تیل کی قیمت پر حد مقرر نہیں کی گئی تھی، لیکن اب ایسا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یوکرین میں روس کی فوج کارروائی کو متاثر کرنا ہے۔
بین الاقوامی تیل کے تاجروں کو کہا گیا ہے کہ وہ روس کو تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل سے زیادہ ادا نہیں کریں گے۔
یہ روسی تیل کی موجودہ قیمت کے قریب ترین ہے، لیکن گزشتہ برس روس جس قیمت پر تیل فروخت کر رہا تھا اس سے بہت کم ہے۔
کریملن کی ویب سائٹ پر جاری روسی صدر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ عمل غیر دوستانہ ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘
دنیا میں سعودی عرب کے بعد روس تیل کی برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس کے تیل کی سپلائی میں کسی رکاوٹ سے دنیا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسری طرف روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے یوکرین کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ ماسکو کی تجاویز پر عمل کرے یا پھر اُس کی فوج ہی اس معاملے کا فیصلہ کرے گی۔
روئٹرز کے مطابق روسی وزیر خارجہ کا یہ بیان صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے یوکرین کو مذاکرات کی پیشکش کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔
انہوں نے ایک دن قبل کہا تھا کہ وہ یوکرین کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں تاہم کیئف اور اُس کے مغربی اتحادیوں نے صدر پوتن کی مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔

روس نے 24 فروری کو یوکرین پر اپنے حملے کا آغاز کیا تھا (فوٹو: روئٹرز)

روس کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ یوکرین اُس کے زیر قبضہ علاقے میں ہتھیار ڈال دے۔ ماسکو مسلسل یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ کیئف ملک کے پانچویں حصے پر اِس کی  فتح کو تسلیم کرے۔ اُدھر یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ روس کے انخلا تک لڑے گا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ’حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں کو فوج سے آزاد کرنے، وہاں سے روس کی سلامتی کو درپیش خطرات کے خاتمے کی ہماری تجاویز کا دشمن کو اچھی طرح علم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نقطہ سادہ سا ہے اور وہ یہ کہ یوکرین ان مطالبات کو اپنی بھلائی کے لیے پورا کرے۔ بصورت دیگر اس معاملے کا فیصلہ روسی فوج کرے گی۔‘
روسی صدر نے 24 فروری کو یوکرین پر اپنے حملے کا آغاز کیا تھا جسے انہوں نے ’خصوصی آپریشن‘ قرار دیا تھا۔

شیئر: