Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں 13 سال سے قید تین بیٹیوں کی ماں کی ’جہنم جیسی زندگی‘

مریم اکبری منفرد کے تین بھائیوں اور بہنوں کو حکومت نے قتل کر دیا ہے (فوٹو:سپلائیڈ)
ایران میں 2009 سے قید ایک خاتون نے اپنی ’جہنم جیسی‘ جیل سے ایک خط شیئر کیا ہے جس میں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان بیان کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق 47 سالہ مریم اکبری منفرد جو تین بیٹیوں کی والدہ ہیں، کو 13 سال قبل ایران کی ’پیپلز مجاہدین آرگنائزیشن‘ کی حمایت کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے انڈیپنڈنٹ کی خبر کے مطابق انہیں اپنے بچوں سے الگ کر دیا گیا جبکہ ان کے تین بھائیوں اور بہنوں کو حکومت نے قتل کر دیا ہے۔
مریم اکبری نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’29 دسمبر 2022 کو مجھے اپنی چار سالہ سارہ اور اپنی دو 12 سالہ بیٹیوں سے سردیوں کی اس آدھی رات کو بچھڑے 13 سال گزر چکے ہیں۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’مجھے اپنے پیاروں کو الوداع کہنے کا موقع فراہم کیے بغیر وہ مجھے کچھ وضاحتیں دینے کے لیے ایون جیل لے گئے اور یہ وعدہ کیا کہ آپ صبح اپنے بچوں کے پاس واپس چلی جائیں گی۔‘
مریم اکبری کے بقول ’یہ کوئی چار ہزار صفحات کی کہانی نہیں ہے بلکہ فاشسٹوں کے تسلط میں زندگی کی حقیقت ہے جس نے اسے اُس وقت ہم پر مسلط کیا جب ہم نے ہار ماننے سے انکار کر دیا تھا۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’سلاخوں کے اس طرف، ظلم و جبر کے اندھیرے صحرا میں جہاں تک کوئی دیکھ سکتا ہے، حتیٰ کہ جہاں تک کوئی نہیں دیکھ سکتا وہاں صرف بربریت ہے۔‘

مریم اکبری نے مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور سنٹر فار ہیومن رائٹس ایران نے بارہا مریم اکبری کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں ’ضمیر کی قیدی‘ قرار دیا ہے جنہیں ’ظالمانہ، غیر قانونی اور غیر انسانی‘ حالات میں رکھا گیا ہے اور ’بے بنیاد‘ الزامات کا سامنا ہے۔
اپنے خط میں مریم اکبری نے حکومت کی ’اخلاقی پولیس‘ کے ہاتھوں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’میں سڑکوں پر بہادری کے ساتھ موجود اپنی بیٹیوں اور بیٹوں سے کہتی ہوں کہ اگر آپ کو گرفتار کر لیا جاتا ہے تو پوچھ گچھ کرنے والوں پر ذرا بھر بھی بھروسہ نہ کریں۔‘
مریم اکبری نے مزید کہا کہ ’میں غمزدہ خاندانوں سے کہتی ہوں کہ میں بھی ان کے غم میں برابر کی شریک ہوں۔ میں یہاں سے ان کا ہاتھ پکڑ کر انصاف کے لیے ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوں، پہلے سے زیادہ مضبوطی سے۔‘

شیئر: