Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابل کے شاپنگ سینٹرز میں ڈمیز کے چہروں پر نقاب، ’یہ بھی حقوق سے محروم ہیں‘

حکم وزارت امر بالمعروف کی جانب جاری کیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شاپنگ سینٹرز میں لباس کی تشہیر کے لیے استعمال ہونے والے خواتین کی ڈمیز (مینیکنز) کو بھی نقاب اوڑھا دیے گئے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس سے قبل طالبان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ڈمیز کے سر ہٹا دیے جائیں۔
یہ حکم اگست 2021 میں کنٹرول سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد سامنے آیا تھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق وزارت امر بالمعروف کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ڈمیز کو فوری طور پر ہٹایا جائے یا پھر ان کے سر اتارے جائیں۔
اس اقدام کی وجہ اسلامی قوانین بتائے گئے تھے کہ ان میں بتوں یا انسانوں کی تصویروں کی ممانعت ہے۔ یہ حکم طالبان کی جانب سے خواتین کو لوگوں کی نظروں سے دور رکھنے کی مہم سے بھی قریب ہے۔
حکم آنے کے بعد کچھ سینٹرز کے مالکان اس کی تعمیل کی اور کچھ نے ان کو سینٹرز کے پچھلے حصوں میں منتقل کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو اپنے حکم پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ اس طرح وہ اپنے سامان کی نمائش نہیں کر سکتے جبکہ قیمتی ڈمیز کے خراب ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔
اس کے بعد طالبان کی جانب سے حکم میں تبدیلی کی گئی اور کہا گیا کہ ان کو ہٹانے کے بجائے چہروں کو ڈھانپا جائے۔
اس کے بعد تاجر حکم کی تعمیل بھی کر رہے ہیں اور اپنے گاہکوں کی توجہ حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مریم سٹریٹ کے شاپنگ سینٹرز میں تمام مینیکنز کے سر ڈھاپنے ہوئے نظر آئے ہیں۔
ایک دکان میں سروں پر چھوٹی چھوٹی مختلف رنگوں تھیلیاں چڑھائی گئی ہیں۔

دکانداروں نے ڈمیز کے چہرے کپڑے یا پلاسٹک سے ڈھانپ رکھے ہیں (فوٹو: اے پی)

دکاندار بشیر نے کسی ’ردعمل‘ سے بچنے کے لیے اپنے نام کا آدھا حصہ ظاہر کرتے ہوئے اے پی کو بتایا کہ ’میں مینیکنز کے چہرے پلاسٹک یا کپڑے سے نہیں ڈھانپ سکتا کیونکہ اس سے میری دکان بری دکھائی دیتی ہے۔‘
طالبان کی جانب سے کنٹرول سنبھالنے کے بعد ملک کے معاشی حالات ابتر ہیں کیونکہ غیرملکی امداد بھی کم ہو گئی ہے۔ ایسے میں دکاندار اپنے سامان کو زیادہ دلکش انداز میں سامنے لانا چاہتے ہیں۔
افغانستان میں شادیوں کے لیے بڑے اور خوش رنگ لباس ہمیشہ سے مقبول رہے ہیں۔
طالبان کے دور حکومت میں سماجی تقریبات شادیوں کی ہی شکل میں کسی حد تک باقی بچی ہیں لیکن آمدنی کے مواقع کم ہونے کے باعث یہ بھی بہت محدود ہو گئی ہیں۔
بشیر کا کہنا تھا کہ ’پہلے کی نسبت اب آمدن آدھی رہ گئی ہے۔ اب لوگ شادیوں کے لباس خریدنے کے بجائے کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔‘
ایک اور دکاندار حکیم، جنہوں نے مینیکز کے سروں پر المونیم سے بنے خوبصورت لفافے چڑھائے ہوئے تھے، نے بتایا کہ ’میں نے اپنی طرف سے مینیکز کو دلکش رکھنے کی کوشش کی ہے۔‘
اسی طرح ایک اور دکان میں ایسے مینیکنز کے سروں پر کالے پلاسٹک کے غلاف چڑھائے گئے تھے جن کو نیچے گاؤن پہنائے گئے تھے۔

دکانداروں کا کہنا ہے کہ وزارت کے اہلکار چیکنگ کے لیے بازاروں کے دورے کرتے رہتے ہیں (فوٹو: اے پی)

اس کے مالک کا کہنا تھا کہ وہ مینیکنز کے لیے کپڑے کی تھیلیاں بنانے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
ایک اور دکاندار عزیز نے بتایا کہ وزارت امر بالمعروف کے اہلکار اس بات کو یقینی بنانے کے لیے باقاعدگی سے بازار کے چکر لگاتے رہتے ہیں کہ مینیکنز کے سر اتارے گئے یا پھر انہیں ڈھانپا گیا ہے یا نہیں۔
انہوں نے طالبان کی تشریح سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر کوئی جانتا ہے کہ مینیکز بت نہیں ہیں اور کوئی بھی ان کی عبادت نہیں کرتا۔ تمام مسلمان ممالک میں مینیکنز کو کپڑوں کی نمائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘
بہت کم شاپنگ میں مردوں کے مینیکز بھی دیکھے جا سکتے ہیں تاہم ان کے چہرے بھی ڈھانپے گئے ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکام کی پابندی یکساں طور پر دونوں کے لیے ہے۔
کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے شروع میں کہا تھا کہ وہ اپنے پچھلے دور کی طرح سخت پابندیاں عائد نہیں کریں گے تاہم رفتہ رفتہ انہوں نے کئی پابندیاں عائد کیں خصوصاً خواتین پر۔

کنٹرول سنبھالنے کے وقت طالبان نے دنیا کو یقین دلایا تھا کہ وہ ماضی کی طرح پابندیاں عائد نہیں کریں گے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے چھٹی کے بعد کی خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان کو زیادہ تر ملازمتوں سے بھی فارغ کر دیا گیا ہے اور ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے چہروں کو ڈھانپ کر رکھیں۔
اسی روز مریم سٹریٹ میں آنے والی ایک خاتون جنہوں نے نام کا صرف ایک حصہ رحیمہ بتایا، نے ڈمیز کے ڈھانپے ہوئے چہرے دیکھے تو کہا کہ ’میں نے جب انہیں دیکھا تو ایسا لگا کہ ان کو جبر کا سامنا ہے جس سے مجھے خوف محسوس ہوا۔‘
’مجھے ایسا لگا کہ میں شیشے کے اندر موجود ہوں، ایک ایسی افغان خاتون جو کہ اپنے تمام حقوق سے محروم ہے۔‘

شیئر: