Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں رہائش کے تکلیف دہ دن یادآگئے

 
’’چلو بھر پانی میں ڈوب مرو‘‘، غیرت دلانے والا محاورہ ہے ورنہ چلو بھر پانی میں تو کوئی گیلا بھی نہیں ہوسکتا
- - - - - --  - - - - -
 عابدہ رحمانی۔امریکہ
- - - - - - -  - --- -
چلو بھر پانی میں ڈوب جاؤ یا ڈوب مرو،اردو زبان کا مشہور محاورہ ہے اور زبان زد عام ہے۔عام طور سے یہ غیرت دلانے اور شرمندہ کرنے کے لئے کہا جاتاہے اسلئے کہ چلو بھر پانی میں ڈوبنا تو درکنار کوئی گیلا بھی نہیں ہوسکتا البتہ پیاس سے تڑپتے ہوئے شخص کے لئے چلو بھر پانی بھی کافی ہوتا ہے۔ امریکی ریاست مشی گن کے قصبے فلنٹ میں پانی کی آلودگی نے پورے امریکہ میں ایک ہلچل اور تشویش پھیلادی۔پانی اس حد تک آلودہ تھا کہ اسکا رنگ بھورا تھا اور اس میں سیسے کی آمیزش خطرناک حد تک تھی۔اس سے کئی لوگ بیمار اور متاثر ہوئے۔اس طرح کا آلودہ پانی اور وہ بھی امریکہ میں، پورے ملک میں ایک زبردست ہنگامہ مچ گیا۔ اسکو نسلی ، طبقاتی رنگ بھی دیا گیا۔
حال ہی میں ان افسران کا کڑا احتساب کیا گیا ،انکو معطل کیا گیا اور ان کے لئے کڑی سزائیں تجویز ہوئیں جو فلنٹ میں پانی کی رسد اور ترسیل کے ذمہ دار تھے اور جنکی مجرمانہ غفلت کے باعث یہ افسوسناک واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ اس واقعے سے مجھے اپنے کراچی میں رہائش کے وہ تکلیف دہ دن یادآگئے جب پانی کے حصول کی کوششیں زندگی کا ایک اہم اور انتہائی تکلیف دہ حصہ تھیں اس پر تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔اب بھی اکثر راتوں کو میں گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں کہ میری ٹنکی میں پانی نہیں آیا یا میں پمپ چلانا بھول گئی ۔یہ بھیانک خواب مجھے کیوں آتا ہے، اسکی کئی وجوہ ہیں۔
میری زندگی کا آدھا وقت پانی والوں، واٹر بورڈ کے انجینیئروں کو فون کرنے اور ان شکایتیں کرنے میں گزرتاتھا۔میری فون بک میں آدھے نمبر پانی والوں کے ہوتے تھے ۔ جب میرے ہاں مہمان آتے تھے تو سب سے زیادہ پریشانی یہ ہوتی تھی کہ پانی کی رسد میں فراوانی کیسے کی جائے؟ ایسی صورتحال اکثر پیش آتی کہ اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں پونچھ پانچھ کے رکھ دیں اور پھر مہنگے داموں پانی کے حصول کے لئے دوڑتے رہے۔ افسوس کہ اسوقت پانی کے ڈسپنسر اورپانی کی بوتلیں میسر نہیں تھیں۔ ٹنکی میں گرتے ہوئے پانی کی آواز سے زیادہ مدھر آواز میری زندگی میں کوئی نہیں تھی اور اس روز کی خوشی کا کیا عالم ،جب اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں بھر جاتیں اور میرے پیڑ پودے بخوبی سیراب ہو جاتے۔
پاکستان میں زندگی کتنی خوشیوں سے بھر پور ہوتی ہے۔ پانی آنے کی خوشی ان میں سے ایک تھی اور اسکو حاصل کرنے کے لئے کئی فون کالز،واٹر بورڈ کے کئی چکر اور والو مین کے مختلف مشورے ان میں شامل ہوتے تھے۔ قسم قسم کے پمپ ،جا بجا کھدائیاں، لمبے لمبے پائپ اور اگر پانی آجائے تو کیا کہنے جو ہالیجی کا گدلاپانی آتا تھا اسکو پینے کے قابل بنانا بھی ایک کارِ داردتھا۔ابال کر اس میں پھٹکڑ ی پھیری جاتی ، جب گدلا پن نیچے بیٹھ جاتا تو صاف پانی اوپر سے نتھار لیا جاتا۔ یہ تمام تگ و دو میری زندگی کا ایک لازم حصہ تھی ۔اسکے باوجود واٹر بورڈ کو پانی کے ایک بھاری بل کی ادائیگی بھی لازم تھی، یہ سوچے بغیر کہ سال میں کتنی مرتبہ واقعی ہمیں انکی جانب سے پانی میسر آتاتھا۔
ہم چونکہ ایک قانون پسند شہری ہیں اور ہمیں احتجاج کرکے کسی قسم کے انصاف کی امید نہیں تھی، پھر بھی ہم خوش تھے کہ زندہ تو ہیں کیونکہ اس پانی کی فراہمی پربعد میں اس سیاسی پارٹی کی اجارہ داری تھی جن سے ٹکر لینا ہم جیسے بے بسوں کے بس میں نہیں تھا۔ اب بھی کراچی میں وہی حال ہے۔ شہر کاآدھا ٹریفک پانی کے ٹینکروں کا ہوتا ہے۔پورا ٹینکر مافیا ہے جسکی شہر میں اجارہ داری ہے۔کراچی کے وہ باشندے اور شہری جنکے ہاں پانی کی فراوانی ہے ،خوش قسمت ترین شہری کہلانے کے حقدار ہیں۔ پچھلے سال یہاں امریکہ میں گھر میں گرم پانی کی لائن میں مسئلہ ہوا ایک عجیب پریشانی، گرم پانی کے بغیر کیسے گزارہ ہوگا؟ انشورنس کمپنی نے ہوٹل لے جانے کی پیشکش کی تاکہ مسئلے کے حل تک وہیں رہا جائے، اسے کیا معلوم کہ ہم پاکستانی ہیں اور کھال موٹی ہے ۔ ہم تو ایسے بحرانوں کو معمولی جانتے ہیں لیکن جو بچے یہاں کے پیدا شدہ ہیں اور بقول شخصے’’ABCD‘‘ یعنی ’’امیریکن بارن کنفیوزڈ دیسیز‘‘ ہیں۔وہ حیران پریشان کہ اس آفت کا مقابلہ کیونکر ہوگا۔
وال مارٹ سے ایک بڑی با لٹی ڈھونڈ کر خریدی گئی ۔پتیلی میں پانی گرم کیا جاتا اور یوں گزارہ ہوا۔24گھنٹے، نہ رکنے والا پانی کہاں سے آتاہے اور کیسے آتا ہے ہمیں فکر اور ترددکرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ہمیں مطلب ہے تو اس سے کہ اس میں ہرگز کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور یہ صاف پانی ہوگا ہاں لیکن یہاں پر پانی بھاری اور سخت ہے جسکے لئے ایک مشین لگی ہوئی ہے ، ساتھ میں ایک جدید فلٹر لگا ہوا ہے اور یہی وجوہ ہیں کہ زندگی کی انہی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول کے لئے 7سمندر پار ہم لوگ اپنا وطن ، اپنی تہذیب و ثقافت کو پیچھے چھوڑ آئے۔ اب جب اپنے وطن جانا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ احتیاط پانی کی ہی کی جاتی ہے ورنہ بد ہضمی لازم ہے۔ پانی انسان کی ایک بنیاد ی ضرورت ہے اس کی تلاش میں قافلے سرگرداں رہتے تھے اورجہاں پانی مل جاتا وہیں بود و باش اختیار کرتے اسی طرح شہر اور بستیاں آباد ہوئیں ۔
پانی واقعی زندگی ہے۔ انسانی جسم کی ساخت میں 80 فیصد پانی ہے اور اس جسم کی بقاء کا انحصار بھی ہوا،پانی اور غذا پر ہے۔ اسی اصول کے مطابق دنیا کی بیشتر آبادی دریا، جھیلوں ، تالابوں اور چشموں کے گرد و نواح میں ہے۔ دنیا میں اسوقت صاف پانی کی فراہمی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے ،دریا ، کنویں ، ندیاں ،آلودگی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔کتنے ممالک ہیں جہاں کی آبادیوں کو صاف اور پینے والا پانی میسرنہیں ۔ عرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک نے سمندر کے پانی سے نمک علیحدہ کرنے والے پلانٹ لگائے ہیں۔ وہاں پر پینے کے پانی اور پٹرول کی قیمت یکساں ہے۔اس لحاظ سے کینیڈا اور امریکہ کی شمالی ریاستوں میں میٹھے پانی کی وسیع و عریض جھیلیں پانی کا ایک بڑا خزانہ اور ذریعہ ہیں۔بلا شبہ زندگی پانی کی مرہون منت ہے اور مصیبت کے وقت ایک چلو بھی کافی ہو جاتا ہے۔

شیئر: