Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کانگریس کی جانب سے گجرات فسادات کے حوالے سے مودی پر بننے والی ڈاکیومنٹری کی نمائش

ڈاکیومنٹری کی سکریننگ ریاست کیرالہ کے دارالحکومت ترواننت پُورم میں کی گئی (فوٹو: سکرین گریب
انڈیا کی کانگریس پارٹی نے مرکزی حکومت کی جانب سے عائد پابندی کے باوجود  وزیراعظم نریندر مودی پر بننے والی ’متنازع‘ ڈاکیومنٹری کی ریاست کیرالہ میں نمائش کی ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق ڈاکیومنٹری کی سکریننگ جمعرات کو ریاست کیرالہ کے دارالحکومت ترواننت پُورم میں کی گئی۔
واضح رہے کہ انڈیا کی مرکزی حکومت نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی تیار کردہ اس دستاویزی فلم کو ’غلط پروپیگنڈہ‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس کی سٹریمنگ پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
دو حصوں پر مشتمل اس ڈاکیومنٹری میں انڈین ریاست گجرات میں سنہ 2002 میں ہونے والے فسادات اور نریندر مودی کی سیاست کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔
مرکزی حکومت کی جانب سے سٹریمنگ پر پابندی کے باوجود اپوزیشن کی جماعتیں اور آزادیٔ اظہار کے حق کے لیے سرگرم کارکن ملک کے مختلف حصوں میں اس ڈاکیومنٹری کی سکریننگ کا اہتمام کر رہے ہیں۔
ریاست کیرالہ میں کانگریس اپوزیشن میں ہے لیکن وہاں کی حکمران جماعت سی پی ایم نے بھی ڈاکیومنٹری پر مرکزی حکومت کی جانب سے پابندی کے فیصلے کے خلاف موقف اپنایا ہے۔
کیرالہ میں ڈاکیومنٹری کی نمائش کے معاملے پر کانگریس میں اس وقت تقسیم دیکھنے میں آئی جب نمایاں سیاسی رہنما اے کے انٹونی کے بیٹے انیل کے انٹونی نے بی بی سی کی اس ڈاکیومنٹری کو انڈیا قومی خودمختاری زک پہنچانے والی’خطرناک مثال‘ قرار دیا تھا۔
 انیل کے انٹونی کے تبصرے کے جواب میں کانگریس کے رہنما اور رکن اسمبلی ششی تھرور نے کہا ’یہ دلیل بچکانہ ہے۔ کیا ہماری خودمختاری اتنی کمزور ہے کہ ایک ڈاکیومنٹری اسے متاثر کر دے۔‘

جے این یو کی انتظامیہ کی جانب سے بجلی بند کیے جانے کے بعد طلبہ نے اپنے موبائل فونز اور لیپ ٹاپس پر ڈاکیومنٹری دیکھی (فوٹو: سکرین گریب)

اس کے علاوہ حیدر آباد، کلکتہ ، چندی گڑھ سمیت متخلف مقامات پر اس ڈاکیومنٹری کی ’بطور احتجاج‘ نمائشوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے جموں میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سنسرشپ پر تنقید کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’سچ ہمشیہ چمکتا ہے۔ اس عادت ہے کہ یہ سامنے آتا ہے۔ دباؤ ڈالنے، پابندیاں لگانے اور لوگوں کو ڈرانے سے سچ کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔‘
واضح رہے کہ بدھ کو جامعہ ملیہ کے درجن بھر سے زائد طلبہ سمیت بائیں بازو کے گروپ کے ارکان کو ڈاکیومنٹری کی سکریننگ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے جس کے باعث جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تدریسی عمل کو روک دیا گیا تھا۔
قبل ازیں منگل کو منگل کو جامعہ کی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ ’سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) اور کمیونسٹ پارٹی کے سٹوڈنٹ ونگ کی جانب سے فیس بک پر کیمپس میں سکریننگ کرنے کے اعلان کے بعد کسی کو جامعہ کے اندر غیرقانونی طور پر اکٹھا ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
اسی طرح کا ایک واقعہ نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں طلبہ کی جانب سے ڈاکیومنٹری کی سکریننگ کی گئی۔ سکریننگ کے دوران انتظامیہ نے انٹرنیٹ اور بجلی کو بند کر دیا جس کے بعد طلبہ نے اپنے موبائل فونز اور لیپ ٹاپس پر ڈاکیومنٹری دیکھی۔
یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکیومنٹری کی سکریننگ کرنے والوں کے خلاف ضابطے کے تحت ایکشن لیا جائے گا۔‘
 

شیئر: