Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کی واپسی: استقبالیہ جلسہ کئی طرح کے پیغامات لیے ہوئے تھا

پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز سنیچر کو لندن سے واپس لاہور پہنچیں، ایئرپورٹ کے باہر ان کی پارٹی اور کارکنان نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔
سنیچر کی صبح سے ہی لاہور ایئرپورٹ کے مرکزی، داخلی اور خارجی راستوں کو صرف مسلم لیگ ن کے کارکنان کے استعمال کے لیے مختص کر دیا گیا تھا۔
لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ آنے جانے والے افراد کو ذیلی راستوں سے گزرنے کی اجازت تھی۔ مسلم لیگ ن نے استقبالیہ سٹیج ایئرپورٹ کے خارجی راستے پر بنایا ہوا تھا۔ تین بجے مریم نواز کے جہاز کی لینڈنگ سے پہلے ہی لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد اکٹھا ہونا شروع ہو گئی تھی۔
دوپہر دو بجے تک ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید لوگ اتنے نہیں آئیں گے کیونکہ یہ کوئی باقاعدہ جلسہ نہیں تھا اور فلائٹ کے آنے میں صرف ایک گھنٹے کا وقت رہتا تھا، تاہم اس کے بعد اچانک لوگوں کی کثیر تعداد ایئرپورٹ کے باہر پہنچنا شروع ہو گئی۔
ٹریفک کی روانی پر مامور ایک اہلکار سے جب پوچھا کہ ان کے خیال میں کتنی گاڑیاں صبح سے اب تک یہاں پہنچی ہیں تو انہوں بتایا کہ ’ہماری توقع سے زیادہ گاڑیاں آگئی ہیں ہم نے بندوبست ایک ہزار گاڑی کے حوالے سے کیا تھا تاہم یہ تعداد دو ہزار سے اڑھائی ہزار تک پہنچ چکی ہے۔‘
لاہور پہنچنے پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ’نواز شریف عنقریب پاکستان آئیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب تک قوم کو مشکلات سے نہیں نکالیں گے آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ تین بار ملک کو مشکل سے نکالنے والا نواز شریف ترقی کا پہیہ دوبارہ رواں کرے گا۔‘

اپنی تقریر میں مریم نواز نے یکم فروری سے ہر ضلعے کا دورہ کرنے کا اعلان کیا (فوٹو: پی ایم ایل این)

مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’اسحاق ڈار پر یقین رکھو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، ان شاء اللہ معیشت کو درست ٹریک پر لائیں گے۔‘
اپنی تقریر کے دوران مریم نواز نے یکم فروری سے ہر ضلعے کا دورہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔
مریم نواز کے استقبال کے لیے آنے والوں میں ہر طرح کے افراد نظر آرہے تھے۔ خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد تھی جو ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے میں مشغول رہے۔ اکثریتی کارکنان مہنگائی کے ہاتھوں لاچار نظر آئے تاہم ان کا خیال تھا کہ صرف مسلم لیگ ن ہی ان مسائل کو حل کر سکتی ہے۔
لاہور کے علاقے ساندھا سے آئے ایک شخص محمود سے جب پوچھا کہ اس استقبالیے میں وہ کیا سوچ کر آئے ہیں۔ تو ان کا کہنا تھا ’میں مسلم لیگ ن کا بیس سال سے کارکن ہوں، میں سیالکوٹ میں پیدا ہوا لیکن لاہور صرف اس وجہ سے منتقل ہوا کیونکہ یہ نواز شریف کا شہر ہے۔‘

مریم نواز نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’نواز شریف جلد وطن واپس آئیں گے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

مہنگائی پر بات کرتے مسلم لیگ ن کے کارکن کا کہنا تھا کہ ’اس سے دوگنا مہنگائی بھی ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ میرا یقین ہے کہ ملک کو مسائل سے نواز شریف ہی نکال سکتے ہیں۔‘
لیگی کارکنوں میں تین طرح کی سوچ رکھنے والے افراد نظر آئے۔ ایک وہ جو ساری خرابی کی جڑ عمران خان کو سمجھتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ ابھی جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے بہتر ممکن نہیں ہے۔
کافی تعداد میں کارکن سمجھتے ہیں کہ انہیں ملک کے اقتصادی حالات سنبھلتے نظر نہیں آرہے، اور انہیں ن لیگ سے بھی فوری ریلیف کی امید نہیں ہے کیونکہ ایسا تکنیکی اعتبار سے ممکن نہیں ہے۔
کارکنان کی تیسری قسم نہ کسی سوال کا جواب دینا چاہتی ہے اور نہ کسی بحث میں شریک ہونا چاہتی ہے۔ وہ صرف مسلم لیگ نواز خاص طور پر نواز شریف کو بطور لیڈر پسند کرتے ہیں۔
مریم نواز کے استقبال میں کئی طرح کے چھپے یا ظاہر پیغامات دیکھے جا سکتے تھے۔ ایک تو بطور پارٹی کی چیف آرگنائزر ان کا اپنے کارکنوں اور پارٹی سے پہلا سامنا تھا۔ ان کے استقبال سے پارٹی کے اندر ایک پیغام گیا ہے کہ اب پارٹی کے فیصلے مریم نواز ہی کریں گی۔ ایک طرح سے یہ استقبال پارٹی کے اندر طاقت کا مظاہرہ تھا۔

لاہور میں ہزاروں کارکنوں نے مریم نواز کا استقبال کیا (فوٹو: سکرین گریب)

لاہور کی صدارت پرویز ملک کی وفات کے بعد خالی تھی اور اس پر رانا مشہود، عمران نذیر اور سیف الملوک کھوکھر سمیت کئی لیگی رہنماؤں کی نظر تھی۔ مریم نواز نے چیف آرگنائزر بنتے ہی اپنے پہلے فیصلے میں سیف الملوک کھوکھر کو لاہور کا صدر بنا دیا۔
یہ ایک لحاظ سے لاہور کی نئی تنظیم کا بھی امتحان تھا کہ وہ کس حد تک کارکنوں کو اکٹھا کر سکتی ہے۔ پارٹی کے اندر جو لوگ اس فیصلے سے ناخوش ہیں ان کو بھی اس استقبال سے ایک واضح پیغام دیا گیا ہے۔
تیرہ جولائی 2018 کو جب نواز شریف اور مریم نواز وطن واپس پہنچے تو اسی لاہور ایئرپورٹ پر انہیں جہاز کے اندر سے حراست میں لے کر جیل منتقل کیا گیا تھا اور ان کے استقبال کے لیے کارکنوں کو ایئرپورٹ پر نہیں پہنچنے دیا گیا تھا۔
چار سال بعد مریم نواز نے لاہور ایئرپورٹ پر دوبارہ لینڈ کیا تو ان کے استقبال کے لیے ہزاروں کارکن موجود تھے اور انتظامی مشینری اور سسٹم اس استقبال کو سہولت فراہم کر رہا تھا۔ ایک طرح سے یہ استقبالیہ علامتی طور پر 2018 کے معاملے کی کڑی بھی معلوم ہو رہا تھا۔
اس استقبالیے کی کوریج پر اکثریتی صحافیوں کا خیال تھا کہ ’یہ ایک کامیاب شو تھا۔‘

شیئر: