Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیٹرول کی قبل از وقت قیمت بڑھانا ہی واحد آپشن تھا؟

اتوار کی صبح پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ نئی قیمتوں کا اطلاق فوری ہو گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں معمول سے ہٹ کر تین دن پہلے ہی 35 روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ خود وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتا دی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت اور ذخیرہ اندوزی سے بچنے کے لیے فوری طور پر نئی قیمتوں کا اطلاق کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں مہینے میں دو بار یعنی یکم اور 15 تاریخ کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اتوار کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 29 جنوری کی صبح یعنی معمول سے تین دن قبل نئی قیمتوں کا اعلان کرکے فوری اطلاق کا حکم بھی جاری کر دیا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قبل از وقت اضافے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قلت نہیں، قیمتیں بڑھنے کی افواہوں کے باعث مصنوعی قلت ذخیرہ اندوزی کے ذریعے پیدا کی گئی۔‘
’افواہیں تھیں کہ 80 روپے فی لیٹر اضافہ ہو گا جس کو ختم کرنے کے لیے وزیراعظم کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ فوری طور پر 35 روپے اضافے کا اعلان کیا جائے۔‘
اس صورت حال پر اردو نیوز سے گفتگو میں سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ’اگر قیمتوں میں اضافے کی خبروں کے باعث ذخیرہ اندوزی ہو رہی تھی تو حکومت کو انتظامی طور پر اسے ٹھیک کرنا چاہیے تھا اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے تھی۔ تین دن پہلے قیمتیں بڑھانا ذخیرہ اندوزوں کو نوازنے کے مترادف ہے جس سے نقصان غریب عوام کا ہوا ہے جو اس مہنگائی میں پس گئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ڈالر کی قیمت اوپر جانے اور عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور جانے کا مزید اثر بھی شامل کرکے آنے والے دنوں میں قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔‘

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ’شوکت ترین نے کہا کہ ’موجودہ حکومت ہر شعبے میں ناکام ہوگئی ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایک سوال کے جواب میں شوکت ترین نے کہا کہ ’موجودہ حکومت ہر شعبے میں ناکام ہوگئی ہے۔ روپے کی قیمت اگر مارکیٹ کے حساب سے گر رہی تھی تو اسے روکنے کا نقصان یہ ہوا کہ اس وقت ڈالر کی اصل قیمت 230 یا 235 روپے ہے لیکن انہوں نے اس کو 225 پر روکے کر رکھا جس کا ردعمل آیا اور ڈالر 264 تک چلا گیا۔ اس سے حکومت کو تو شاید کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان کا مقصد ہی کچھ اور ہے لیکن عوام کو اس کا نقصان ہوا ہے۔‘
خیال رہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں بھی پیٹرول پمپ مالکان کی جانب سے دو مرتبہ پیٹرول بحران پیدا کیا گیا تھا۔ جس کے باعث وزیراعظم عمران خان نے اپنے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر سے استعفیٰ طلب کر لیا تھا۔
2020 میں جب کورونا کے باعث پیٹرول کی کپھت میں کمی ہوئی تو سستا پیٹرول مارکیٹ سے غائب ہو گیا تھا۔ اس وقت بھی اوگرا کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ مسئلہ پیٹرول کی قلت یا کمی کا نہیں ہے بلکہ قیمتوں میں اضافے کا ہے۔ اگر آج حکومت قیمتوں میں اضافہ کر دے تو تمام پیٹرول پمپس پر پیٹرول ملنا شروع ہو جائے گا۔

ماضی میں بھی پیٹرولیم کمپنیوں کی جانب سے مصنوعی قلت پیدا کی جاتی رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کار خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ ’موجودہ صورت حال میں جب یہ افواہ تھی کہ پیٹرول کی قیمت میں 80 روپے اضافہ ہونا ہے، ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت کا پیدا ہو جانا ایک لازمی امر تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت انتظامی طور پر اس سے نمٹ سکتی تھی تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ ملک بھر کے پیٹرول پمپس پر انتظامیہ کے ذریعے پیٹرول و ڈیزل کی فروخت یقینی بنانا ناممکن تھا۔ ایسی صورت حال میں اوگرا ہمیشہ بے بس نظر آیا ہے اور وہ حکومت کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سابق دور حکومت میں ایسے دو بحرانوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب ایک بار سپلائی چین کا سلسلہ ٹوٹ جائے تو اسے مکمل طور پر بحال ہونے میں ایک ہفتہ لگ جاتا ہے جس سے سوال قیمتوں سے زیادہ حکومت کی بدانتظامی پر اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے حکومت کے پاس تین دن پہلے قیمتیں بڑھانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔‘
خیال رہے کہ ماضی میں بھی پیٹرولیم کمپنیوں کی جانب سے مصنوعی قلت پیدا کی جاتی رہی ہے۔ جن سے وقتی طور پر تو قیمتیں بڑھا کر یا ان کے دیگر مطالبات مان کر حل کیا گیا تاہم بعدازاں اوگرا کی جانب سے ایسی کمپنیوں کو جرمانے بھی کیے گئے ہیں۔

شیئر: