Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں ’باپُو‘ کے خلاف تضحیک آمیز مہم کیوں چل رہی ہے؟

بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد گاندھی کے خلاف الزامات میں تیزی آئی (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے بابائے قوم موہن داس گاندھی کی حیثیت وہ نہیں رہی جو بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے قبل تھی اور اب بات ڈھکے چھپے الفاظ کے بجائے کھلے عام انتہائی حقارت آمیز تبصروں تک جا پہنچی ہے۔
فائنینشل ٹائمز میں چھپنے والے راما چندرا گوہا کے مضمون میں اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی  گئی ہے۔
دنیا میں میری آنکھ 1958 میں اس لمحے کے ٹھیک 10 سال بعد کُھلی جب انڈیا کے ’باپو‘ گاندھی آنکھیں بند ہوئی تھیں میں ان کی محبت میں گُندھی فضا میں پروان چڑھا۔ اپنے ایک انکل کی بدولت مجھے گاندھی کے کارناموں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔
 اسی طرح ایک اور انکل، وہ بھی گاندھی سے متاثر تھے، نے کمیونٹی صحت کے حوالے سے پروگرام شروع کیا تھا۔
یہ خاندانی اثرات اردگرد موجود عوامی جذبات سے مل کر مزید مضبوط ہوتے رہے۔
موہن داس گاندھی کو قوم کا باپ کہا جاتا ہے جنہوں انگریزوں کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑی۔ ان کے فلسفہ عدم تشدد کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
باپو کی کوششوں کا ہی صلہ ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
سکول کی اسمبلی کے موقع پر ہم 17ویں صدی کا ایک گیت گایا کرتے تھے جو گاندھی کو خصوصی طور پر پسند تھا اور اس کے ذریعے اپنی جدوجہد کے اظہار کے لیے انہوں نے اسے دوبارہ لکھا تھا۔
ہندو خدا کو ایشور کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ گاندھی جی کہا کہ ہمیں اس کو اللہ کے طور پر بھی دیکھنا ہے۔
 اس وقت اساتذہ ہمیں انہی کی تعلیمات سے متعلق لائنز پڑھاتے تھے مگر اس کے بعد کچھ ایسا بھی دیکھا جو غالباً گاندھی پر پہلی تنقید تھی۔

’وزیراعظم نریندر مودی گاندھی جی کے معاملے میں دوغلے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ (فوٹو: گیٹی امیجز)

آکسفورڈ کے سکالر ویریئر ایلوین اپنی سوانح عمری میں خود کو گاندھی کا شاگرد بھی قرار دیتے ہیں۔ بعد میں کئی سال تک وہ انہی کے نظریات اور فلسفے کا دفاع کرتے رہے۔
اس کے بعد ایلوین کی جانب سے بنایا گیا گاندھی کا تاثر اس وقت پگھلنا شروع ہوا جب 80 کی دہائی میں مارکسزم سے متاثر کولکتہ کے ادیبوں سے موازنہ کیا کیونکہ ان کا جدوجہد کا انداز گاندھی سے بہت دور تھا۔
یہ ادیب ماؤ سے متاثر تھے اور ان کو جہاں بھی گاندھی کے مجسمے ملتے توڑ دیتے تھے۔
اس وقت ایسی کتابیں لکھی گئیں کہ گاندھی انگریزوں کے ایجنٹ تھے اور عدم تشدد کا فلسفہ اس لیے اپنایا گیا تھا کہ عوام کو انقلاب کے راستے پر چلنے سے دور رکھا جا سکے۔
اپنے مارکسسٹ دوستوں کے ساتھ میرے بہت مباحث ہوئے۔ میں نے انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان کا عدم تشدد کا فلسفہ انسانی جان لینے کے رجحان کے ردعمل میں پیدا ہوا تھا۔
اس کے بعد زندگی گزرتی رہی اور 2020 میں مارکسزم کے علاوہ دیگر نظریات کی جانب سے بھی گاندھی پر حملے دیکھنے کو ملے۔
پچھلے ساڑھے آٹھ برس سے دائیں بازو کے ہندو اقتدار میں ہیں اور ان کے نزدیک گاندھی کا عدم تشدد اور مذہبی ہم آہنگی کا فلسفہ ایک بری چیز ہے۔
دوسری جانب وہ اب بھی سرکاری طور پر ’قوم کے باپ‘ ہیں، ان کی سالگرہ پر چھٹی ہوتی ہے اور کرنسی نوٹس پر بھی ان کا چہرہ دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں عوام کا کچھ کنفیوزڈ ہے اور کچھ کا میلان بھی گاندھی مخالف ہو چلا ہے۔

جواہر لعل نہرو کو سیاسی وارث قرار دینے پر بھی گاندھی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے (فوٹو: یونیورسل امیجز)

یہ جاننے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ گاندھی اپنی ہی سرزمین پر غیرمقبول کیوں رہے ہیں، کے لیے ضروری ہے کہ پچھلے 75 برس کو کھنگالا جائے۔
گاندھی کو 30 جنوری 1948 کو نتھورام گوڈسے نے قتل کیا تھا جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا رکن تھا۔
یہ تنظیم 1925 میں بنی تھی اور آج تک نہ صرف قائم ہے بلکہ انڈیا میں ہندو مذہبی حکومت کے قیام پر یقین رکھتی ہے۔
اس کے قائدین اور کارکنوں کا اصرار ہے کہ جغرافیائی برتری اور ہندو مذہب کی بنیاد پر انہیں ملک کا مستقل حکمران ہونا چاہیے۔
وہ مسلمانوں اور عیسائیوں پر ایک خاص قسم کا شک رکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مذاہب کی ابتدا انڈیا کے باہر سے ہوئی اور ان کے مقدس مقامات بھی دوسرے ممالک میں ہیں۔
1947 میں تقسیم کے بعد بھی گاندھی نے عدم تشدد کے فلسفے کا دامن نہیں چھوڑا تھا وہ ان لوگوں کے خلاف سرگرم رہے جو انڈٰیا میں رہ جانے والے مسلمانوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے اور اسی صورت حال کی وجہ سے انہوں نے کولکتہ اور دہلی میں برت رکھا تھا۔
ان کی برت کے بعد برٹش ہائی کمیشن نے لندن کو ایک خط میں لکھا تھا کہ وہ ایک ایسا روز تھا کہ جب وہ مسلمان بھی گاندھی کی حمایت میں نکلے جو باہر نکلنے سے خوفزدہ تھے مگرانہیں یقین تھا کہ ہندو ہونے کے باوجود گاندھی ہی وہ شخصیت ہیں جو انہیں نقصانات سے بچا سکتے ہیں۔
گاندھی کی جانب سے مذہبی رواداری پر زور نے آر ایس ایس کے سربراہ ایم ایس گولواکر کو آگ بگولا کر دیا تھا۔

گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد کو کمزوری کی علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)

پولیس ریکارڈ کے مطابق دسمبر 1947 میں آر ایس ایس کا ایک اجلاس دہلی میں ہوا۔ جس میں گولواکر نے مسلمانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو انہیں انڈیا میں رکھ سکے اور انہیں ملک سے نکلنا پڑے گا۔‘
انہوں نے گاندھی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ مسلمانوں کو انڈیا میں اس لیے رکھنا چاہتے ہیں کہ کانگریس ان کے ووٹوں سے فائدہ اٹھا سکے لیکن اس وقت تک انڈیا میں ایک بھی مسلمان نہیں رہے گا۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ہمارے پاس ایسے شخص کو خاموش کرنے کے اور بھی طریقے ہیں مگر یہ ہماری روایت ہے کہ ہندوؤں کو نقصان نہ پہنچائیں۔‘
’اگر ہم کو مجبور کیا گیا تو ہمیں اس سے ہٹنا پڑے گا۔‘
اس کے کچھ ہفتے بعد گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔
اس کے بعد آر ایس ایس پر پابندی لگا دی گئی اور اس کے سربراہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ انڈین آئین کو تسلیم کرنے کی یقین دہانی پر بعدازاں آر ایس ایس پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔
 اس کے بعد آنے والی دہائیوں کے دوران یہ آہستہ آہستہ انڈیا میں پھیلتی رہی اور انڈیا بھر میں اس کے پیروکار سامنے آئے۔
موجودہ مقتدر جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آر ایس ایس تنظیم کے بطن سے ہی پھوٹی ہے جو مئی 2014 سے ملک میں اقتدار میں ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے نوجوانی میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی جبکہ ان کے زیادہ تر وزرا بھی اس سے منسلک رہ چکے ہیں۔
ریاست کے تعلیم، پروپیگنڈے اور سوشل میڈیا کو ہاتھ میں رکھتے ہوئے وہ ٓر ایس ایس کی تاریخی بیانیے کو دوبارہ سے لکھنے کی کوشش میں ہیں۔

موہن داس گاندھی کو انگریزوں کا ایجنٹ بھی قرار دیا جا رہا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)

انڈیا پر حکمرانی کرنے مسلمان حکمرانوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور آج کے دور میں مسلمانوں سے ان کے اقدامات کے جوابات طلب کیے جاتے ہیں۔
آزادی کے لیے گاندھی اور ان کی جماعت کانگریس کی جدوجہد سے انکار کیا جاتا ہے اور جن لوگوں نے انگریز حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی ان کو محب وطن قرار دیا جا رہا ہے۔
1950 میں بننے والے سیکولر آئین کو نظرانداز کیا جاتا ہے جبکہ شہریوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ قدیم زمانے سے ہندو چلے آ رہے ہیں۔
 اگر کوئی تاریخی تنوع پر بات کرے تو اس کو ’واٹس ایپ کی تاریخ‘ قرار دیتے ہوئے نظرانداز کرنے کا کہا جاتا ہے تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ وہ ان کوششوں میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
آج کے بیانیے میں گاندھی کا کردار ایک نفرت انگیز شخص کے طور پر ہے۔ جن پر عدم تشدد کو پھیلا کر لوگوں کو کمزور بنانے کا الزام لگایا جاتا ہے اور انہیں حقارت آمیز الفاظ سے ’کمزور‘ قرار دیا جاتا ہے۔
ان پر کسی مستند ہندو شخص کے بجائے جواہر لعل نہرو کو اپنا سیاسی وارث کے طور پر منتخب کرنے اور پاکستان کے قیام کو نہ روکنے کے الزام بھی لگائے جاتے ہیں جبکہ انڈیا میں رہ جانے والے مسلمانوں کا وکیل بھی قرار دیا جاتا ہے۔
بی جے پی کے ارکان گاندھی کے قاتل کو ’دیش بھگت‘ قرار دیتے ہیں۔

بی جے پی کے تین سو منتخب ارکان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

ہر 30 جنوری کو نتھو رام گوڈسے کے حق میں ٹوئٹر پر ٹرینڈز چلتے ہیں اور ان کے مجسمے بنانے اور یاد میں مندر تعمیر کرنے کے منصوبوں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔
یوٹیوب پر ایسی ویڈیوز ڈالی جاتی ہیں جن میں گاندھی کا مذاق اڑایا گیا تھا اور ان کو لاکھوں کی تعداد میں ویوز ملتے ہیں۔
سیاسی طور پر دائیں بازو کے ہندوؤں کا اثرورسوخ مودی جیسے سخت گیر شخص کی مدد سے جاری ہے۔
ان کے پیروکار گاندھی کو گالی دیتے ہیں اور خود مودی نے بھی عجیب سے دوغلے پن کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔
ایک طرف وہ وی ڈی ساورکر کے لیے عقیدت کا دعوٰی کرتے ہیں جو ایک ہندو قوم پرست تھا اور گاندھی اور مسلمانوں سے یکساں طور پر شدید نفرت کرتا تھا۔
مودی اس کو اپنا گرو بھی مانتے ہیں اور دوسری جانب یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ گاندھی عالمی سطح پر سب سے مشہور انڈین ہیں اور احمد آباد میں اپنے ذاتی پروفائل کو بڑھاوا دینے کے لیے اپنے وزرا کے ہمراہ گاندھی کے آشرم کے دورے بھی کرتے رہتے ہیں
نریندر مودی نے وی ڈی ساواکار کو پارلیمنٹ ہاؤس میں 2014 میں خراج عقیدت پیش کیا تھا۔
دو اکتوبر 2019 کو گاندھی کی ایک سو 50ویں سالگرہ کے موقع پر نیویارک ٹائمز نے مودی کا ایک ایسا مضمون شائع کیا تھا جس میں انہوں نے گاندھی کی تعریفیں کی تھیں۔

وزریاعظم نریندر مودی آر ایس ایس کے باقاعدہ رکن بھی رہ چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یہ مضمون بڑے زبردست انداز میں لکھا گیا تھا جس کے آغاز میں امریکی لیڈر مارٹن لوتھر کنگ کی جانب سے گاندھی کے لیے نیک جذبات کا ذکر کیا گیا تھا اور اختتام بھی ایک بڑے امریکی البرٹ آئن سٹان کی ان کے بارے میں رائے سے کیا گیا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ ’گاندھی ہمارے ایک ایسے استاد تھے جنہوں نے انسانیت کا درس دیا۔‘
اس میں تو کوئی کلام نہیں گاندھی نے کیسی زندگی گزاری انہوں نے مذہبی رواداری پر زور دیا اور اس بنا پر اپنی جان دی۔
اب سوال یہ ہے کہ بھول کہاں ہوئی، آخر کیا وجہ سے گاندھی کی شخصیت کے حوالے مختلف باتیں کیوں سامنے آنا شروع ہوئیں۔ اس کا جواب یہ نہیں کہ یہ سب کچھ حادثاتی طور پر ہو رہا ہے۔
مودی بھی اسی انڈیا کے رہائشی ہیں جس کے گاندھی تھے مگر اس کے علاوہ ان میں مشابہت مشکل سے ہی ملتی ہے۔
مودی سب سے پہلے خود کو ایک ہندو کے طور دیکھتے ہیں جبکہ گاندھی وہ تھے کہ جنہوں نے ان مسلمانوں کے گھروں کے دورے کیے تھے جو تقسیم کے بعد انڈیا چھوڑنا چاہتے تھے۔

بی جے پی حکومت کے زیادہ تر وزرا بھی آر ایس ایس کا حصہ رہ چکے ہیں (فوٹو: پی ٹی آئی)

تقسیم کے بعد گاندھی نے مسلمانوں پر تشدد کی مخالفت کی تاہم حالیہ کچھ عرصے کے دوران مسلمانوں کے خلاف بننے والی صورت حال پر مودی خاموش دکھائی دیتے ہیں اور ان کی پارٹی 20 کروڑ مسلمانوں سے دھرتی سے محبت کا ثبوت مانگتی ہے۔
بی جے پی کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کے تین سو منتخب ارکان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں جبکہ مودی اگر کہیں گاندھی کی تعریف کرتے بھی ہیں تو صرف چند منتخب حوالوں سے، اور اس کی وجہ وہ ووٹ بینک ہے جو سمجھتا ہے کہ گاندھی کو درست قتل کیا گیا اور انہیں اس سے بھی قبل مر جانا چاہیے تھا۔
گاندھی آزاد صحافت کے داعی تھے اور ان سمیت کئی دوسرے لکھاریوں کو انگریز حکومت نے گرفتار بھی کیا تھا جس پر گاندھی نے کہا تھا کہ ملک آزاد ہونے کے بعد ایسے قوانین ختم کیے جائیں گے جو آزاد صحافت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
آج بھی ملک میں ویسی ہی صورت حال ہے اور صحافیوں کے علاوہ سٹوڈنٹ لیڈرز اور سماجی کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔

شیئر: