Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان تاجر پاکستان میں کن شعبوں میں تجارت کو ترجیح دیتے ہیں؟

افغان تاجر نسیم خان کے مطابق دہشتگردی یا پاک افغان بارڈر پر کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو اس کا اثر ان کے کاروبار پر پڑتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں مقیم رجسٹرد افغان شہریوں کی تعداد تقریباً 15 لاکھ ہے جن میں سے آٹھ لاکھ سے زائد صرف صوبہ خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہیں۔
پچھلے 40 برسوں سے پاکستان میں رہنے والے بیشتر افغان باشندے یہاں مختلف قسم کے کاروبار سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کراچی، کوئٹہ یا پشاور میں رہ کر تجارت یا کاروبار کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان میں سے کئی اب پاکستان کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتے ہیں۔
بیشتر افغان تاجر پاکستان میں گڈز ٹرانسپورٹ، گارمنٹس، ریئل اسٹیٹ اور ہارڈویئر کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر نائب صدر شاہد حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایک تو چھوٹے کاروباری افراد ہیں جو خاندان کی کفالت کے لیے مختلف کاروبار کر رہے ہیں، ان میں سرفہرست ریسٹورنٹس اور چائے ڈھابوں کا کاروبار ہے۔ 
’ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مختلف شعبوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور کامیاب کاروبار کے ذریعے اربوں روپے کما رہے ہیں۔‘
شاہد حسین کے مطابق ’افغان تاجر ٹرانسپورٹ میں سب سے آگے ہیں۔ ان کی گاڑیاں کراچی سے پشاور اور کابل تک چلتی ہیں جن میں گڈز ٹرانسپورٹ سرفہرست ہے۔‘
’اسی طرح پراپرٹی میں بھی افغان شہریوں نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جبکہ گارمنٹس بھی افغانی تاجروں کا پسندیدہ کاروبار ہے۔ تاہم یہ زیادہ تر خیبرپختونخوا اور کابل تک محدود ہے۔‘

ایف آئی اے حکام کے مطابق افغانستان کے بڑے سرمایہ کار کرنسی حوالہ ہنڈی کا کام بھی کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

تجارت پاکستان میں، فیکٹریاں کہیں اور  

شاہد حسین کا کہنا تھا کہ تجارت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے باوجود افغان شہری پاکستان میں انڈسٹری لگانے سے ہچکچاتے ہیں۔ 
’اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے ہاں کی صنعتی پالیسیاں ہیں جن پر افغان سرمایہ کار اعتماد نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی وقت ہمارے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔ وہ پاکستان کے بجائے دوبئی، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں کارخانے لگا رہے ہیں۔‘
پشاور میں کاروبار کرنے والے افغان تاجر شکیل زمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ افغان شہری گاڑیوں کے سپیئر پارٹس اور ٹائروں کے کاروبار میں زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہیں کیوںکہ اس میں منافع زیادہ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بڑے افغان ڈیلرز کنٹینرز میں مال پہلے کراچی کی مارکیٹ تک پہنچاتے ہیں پھر اس کے بعد پشاور لاتے ہیں۔
’بعض دفعہ افغان خود کو سامنے لائے بغیر کسی پاکستانی پارٹنر کے ذریعے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔‘
شکیل زمان کے مطابق ’آج سے چند برس قبل قالین کا کاروبار بھی منافع بخش تھا مگر گزشتہ کچھ عرصے سے اس سے جڑے تاجر اس شعبے کی تنزلی کے باعث اب دیگر کاروباروں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔‘

بیشتر افغان تاجر پاکستان میں گڈز ٹرانسپورٹ، گارمنٹس، ریئل اسٹیٹ اور ہارڈوئیر کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پشاور میں افغانوں کے قالین کے کارخانوں کے بڑے مراکز ہوا کرتے تھے جو اب گنتی کے رہ چکے ہیں۔ 
افغان ٹریڈر نسیم خان گزشتہ 10 برسوں سے ڈرائی فروٹ اور لوبیا کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب سیزن آئے تو اس کاروبار کی چاندی ہو جاتی ہے، مال آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے۔ 
نسیم خان کے مطابق ڈالر کی اونچی اڑان اور بدامنی نے اس کاروبار کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس لیے تاجر اس کاروبار میں سرمایہ کاری سے کتراتے ہیں۔

افغان تاجروں کو کیا مشکلات درپیش ہیں؟

افغان تاجر نسیم خان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی یا پاک افغان بارڈر پر کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو اس کا اثر ان کے کاروبار پر پڑتا ہے۔

پشاور میں افغانی قالین کے کارخانوں کے علاوہ بڑے مراکز ہوا کرتے تھے جو اب گنتی کے رہ چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ٹرانزٹ روٹ پر ہماری گاڑیوں کو بلاوجہ روکا جاتا ہے۔ اسی طرح جب طورخم بارڈر پر مال بردار گاڑیاں آتی ہیں تو ان کو بھی تنگ کیا جاتا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ حکومت دیگر تاجروں کی طرح انہیں بھی تحفظ فراہم کرے کیونکہ اس ملک میں ان کی سرمایہ کاری سے ہزاروں پاکستانیوں کا روزگار بھی وابستہ ہے۔

کیا حوالہ ہنڈی میں بھی افغان تاجر شامل ہیں؟

ایف آئی اے حکام کے مطابق افغانستان کے بڑے سرمایہ کار کرنسی حوالہ ہنڈی کا کام بھی کر رہے ہیں۔
ملک کے کسی حصے میں مال خریدنے کے لیے ان افغان ڈیلرز سے رابطہ کیا جاتا ہے جس کے لیے یہ ہنڈی کے ذریعے پیسوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔
ایف آئی اے حکام کا مزید کہنا ہے کہ ڈالروں کی خرید و فروخت کرنے والے کئی ہنڈی ڈیلرز گرفتار بھی کیے جا چکے ہیں۔

شیئر: