Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر

پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ’ہم سب کو مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔ پاک افواج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے۔‘
جمعے کو پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’خیبرپختونخوا میں 14 ہزار 500 سے زائد آپریشنز کیے گئے۔ رواں سال مارے جانے والے خارجیوں کی تعداد گذشتہ 10 سال سے زیادہ ہے۔‘
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی موجود ہے۔ دہشت گردی میں اضافے کی وجہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہونا ہے۔
’سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو سپیس دی گئی۔ دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کی گئی اور قوم کو اُلجھایا گیا۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتیں پشاور میں بیٹھیں اور نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں اور حکومت نے کہا کہ دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ دہشت گردوں کو ماریں گے، اس پر کام ہوا اور اس سال 900 سے زیادہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ’نیشنل ایکشن پلان کا دوسرا نکتہ تھا کہ دہشت گری کے خلاف میڈیا اور سیاستدان مضبوط بیانیہ بناتے ہوئے ایک آواز ا’ٹھائیں گے، لیکن اس کے باوجود یہ آوازیں آئیں کہ بات چیت کر لی جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے، اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو جنگیں اور غزوات نہ ہوتے۔ کیا آج ہم ایک بیانیے پر کھڑے ہیں؟‘
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کا تیسرا نکتہ غیرقانونی سپیکٹرم کو ختم کرنا ہے جس میں بھتہ خوری اور نارکوٹیکس کے نیٹ ورک کو ختم کرنا شامل ہے لیکن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور اس کے سہولت کاروں کو سپیس دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’خیبرپختونخوا میں یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اب سٹیٹس کو نہیں چلے گا۔ جو شخص یا گروہ  کسی مجبوری یا فائدے کی وجہ سے خارجیوں کی سہولت کاری کر رہا ہے اس کے پاس تین چوائسز ہیں۔
’آپشن 1: سہولت کاری کرنے والا خوارجیوں کو ریاست کے حوالے کر دے۔ آپشن 2: دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو انجام تک پہنچائے۔ اگر یہ دونوں کام نہیں کرتے تو خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست کی طرف سے ایکشن کے لیے تیار رہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود انڈین پراکسیز کی طرف سے پاکستان میں کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ افغانستان کو پاکستان پر حملے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے شواہد موجود ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کے ساتھ تاریخی دفاعی معاہدے سے پہلے بھی افغانستان کے معاملے پر سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کے ذریعے بات چیت کی گئی ہے۔‘

 

شیئر: