اسرائیلی فوج نے جمعے کو جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے غزہ میں کچھ مقامات سے پیچھے ہٹ گئی ہے، جس کے بعد ہزاروں بے گھر فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹنے کا سفر شروع کر چکے ہیں جبکہ 7 اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ کسی اطلاع کے منتظر ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج نے مقامی وقت کے مطابق دوپہر 12 بجے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اقدام جنگ بندی معاہدے اور یرغمالیوں کی واپسی کی تیاری کے تحت کیا گیا ہے۔‘
غزہ کی شہری دفاع ایجنسی کے مطابق اسرائیلی ٹینک اور فوجی دستے غزہ شہر اور خان یونس میں اگلی پوزیشنوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ بے گھر فلسطینی شہریوں نے نے کہا کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کی امید رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
اسرائیلی کابینہ نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی منظوری دے دیNode ID: 895664
ہزاروں فلسطینی شہری غزہ کے ساحلی علاقے میں بلند سڑکوں پر پیدل سفر کرتے نظر آئے، جو دو برس کی شدید لڑائی کے بعد اپنے علاقوں کو لوٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔
زخموں اور غم کے ساتھ واپسی
خان یونس میں 32 سالہ امير ابو ليادة نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے علاقوں میں واپس جا رہے ہیں، زخموں اور غم کے ساتھ، لیکن ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ کم از کم یہ دن دیکھنا نصیب ہوئی۔‘
’ان شا اللہ سب اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ ہم خوش ہیں، چاہے ہم کھنڈرات میں لوٹیں، کم از کم یہ ہماری زمین ہے۔‘
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر کے مطابقحکومت نے حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے ایک فریم ورک کی منظوری دے دی ہے، اور فوج نے تصدیق کی ہے کہ وہ ’غزہ کی پٹی میں اپنی آپریشنل پوزیشنز میں تبدیلی لا رہی ہے۔‘
جنگ بندی کے اعلان سے قبل کچھ علاقوں میں جھڑپیں جاری تھیں۔ شمالی غزہ سے دھوئیں کے بڑے بادل اٹھتے دیکھے گئے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ تازہ حملوں کی رپورٹس کی جانچ کر رہی ہے۔ غزہ کے سول ڈیفنس افسر محمد المغیر کے مطابق اسرائیلی فائرنگ سے ایک میونسپل کارکن ہلاک ہوا۔
اسرائیل نے کہا تھا کہ مصر میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں تمام فریقین نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر دستخط کر دیے ہیں، اور یہ کہ حماس کی جانب سے باقی اسرائیلی یرغمالیوں (زندہ یا مردہ) کی رہائی سے ’جنگ کا اختتام‘ ممکن ہو گا۔
یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گذشتہ ماہ پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبے کے بعد سامنے آیا، جو اتوار کو مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے والے ہیں۔
مصر اس معاہدے کی تکمیل پر ایک تقریب کی تیاری کر رہا ہے، جبکہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں یرغمال بنائے گئے 47 افراد کے اہل خانہ اب بھی اپنے پیاروں کی واپسی کے منتظر ہیں۔
اگرچہ اسرائیل اور غزہ میں جنگ بندی پر خوشی منائی جا رہی ہے اور عالمی رہنماؤں کی جانب سے مبارکباد کے پیغامات بھی موصول ہو رہے ہیں، لیکن کئی معاملات ابھی تک حل طلب ہیں، جن میں حماس کا ہتھیار ڈالنا اور غزہ کے لیے ایک عبوری اتھارٹی کی تشکیل شامل ہے، جس کی قیادت صدر ٹرمپ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حماس کے سینیئر رہنما اسامہ حمدان نے قطر کے نشریاتی ادارے ’العربی‘ سے بات کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس کے ہتھیار ڈالنے کا مسئلہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے میں حل کیا جائے گا۔انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہتھیار ڈالے جائیں گے اور اسرائیلی افواج بھی پیچھے ہٹیں گی۔‘
اور جمعے کو یہ انخلا ہوتا ہوا نظر آیا۔
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے محمد المغیر کے مطابق ’اسرائیلی افواج غزہ شہر کے کئی علاقوں سے پیچھے ہٹ چکی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج تل الهوى اور الشاطی کیمپ سمیت کئی علاقوں سے نکل رہی ہے، جہاں حالیہ ہفتوں میں شدید فضائی اور زمینی کارروائیاں دیکھی گئی تھیں، اور خان یونس کے کچھ حصوں سے بھی انخلا جاری ہے۔