پاکستان کی سپریم کورٹ کے حکم پر صدرِمملکت نے پنجاب میں 30 اپریل کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ تجویز کی ہے۔ تاریخ کا اعلان ہوتے ہی عام انتخابات کے عمل کا آغاز قانونی طور پر ہو چکا ہے۔
چئیرمین تحریک انصاف نے گزشتہ ہفتے سے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ وہ لاہور میں 8 مارچ کو ایک ریلی بھی نکالیں گے۔
مزید پڑھیں
-
’عمران خان عدالت پیش ہو گئے تو ٹھیک ورنہ دوسرا طریقہ اپنائیں گے‘Node ID: 748306
-
عمران خان سیاستدان نہیں ہیں، ان سے بات نہیں کر سکتے: آصف زرداریNode ID: 748406
دوسری طرف مسلم لیگ نواز سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں نے باضابطہ طور پر انتخابی مہم کا اعلان تو نہیں کیا البتہ ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں کہ ان کی تیاری بھی جاری ہے۔
عام انتخابات میں سب سے کٹھن مرحلہ امیدواروں کو ٹکٹ دیے جانے کا ہوتا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات صدر کی دی گئی تاریخ پر ہوتے ہیں تو ان عام انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم ایک دلچسپ مرحلہ ہو گا۔ اور اس مرتبہ یہ کسی بھی طرح پرانے روایتی طریقے سے نہیں ہوگا کیوں گیم کے رُولز بدل چکے ہیں۔
مسلم لیگ ن نے مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کر دیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ اس پارٹی کے اندر ٹکٹوں کی تقسیم میں اب مریم نواز کی رائے بھی بہت اہم ہو گی۔
تحریک انصاف میں البتہ صورت حال یہ ہے کہ عمران خان باضابطہ طور پر یہ اعلان کر چکے ہیں وہ اب خود پارٹی ٹکٹ جاری کریں گے اور کسی بھی طرح کا دباؤ قبول نہیں کریں گے۔
مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی مشکلات
پنجاب میں مسلم لیگ ن پلان بی کے طور پر ٹکٹوں اور دیگر انتخابی معاملات پر کام شروع کر دیا ہے۔
پارٹی کے ایک اہم رہنما نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ویسے تو ہمیں 30 اپریل کو انتخابات نظر نہیں آ رہے البتہ پھر میں ہم نے اپنی تیاری پلان بی کے طور پر شروع کر رکھی ہے۔ اور ایسے حلقے جہاں مسلم لیگ ن کی جیت یقینی ہے اور وہ امیدوار جن کا اپنے حلقوں میں اثر و رسوخ ہے، ان کے نام فائنل ہو چکے ہیں۔ جو حلقے واضح نہیں ہیں، ان پر پارٹی کا پارلیمانی بورڈ فیصلہ کرے گا، وہ پراسیس تھوڑا لمبا ہو گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ جن ایم پی ایز نے تحریکِ انصاف سے وفاداریاں بدلی تھیں۔ کیا انہیں بھی ٹکٹ مل رہے ہیں؟ لیگی رہنما نے کہا کہ ’کچھ لوگوں کو ٹکٹ ملیں گے جیسا کہ لاہور میں اسد کھوکھر نے ضمنی انتخابات میں اپنا لوہا منوایا تھا۔ اسی طرح کچھ اور امیدواروں کو بھی ٹکٹ دیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اکثر امیدوار جو ضمنی انتخابات میں ہارے تھے، پارٹی کے اندر ان کے لیے بہت زیادہ اپوزیشن ہے۔
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ن لیگ کا ٹکٹوں کا مرحلہ تھوڑا پیچیدہ ہو گا ’ابھی تو یہ بھی فیصلہ نہیں ہوا کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی اکھٹے الیکشن لڑے گی یا بھی راستے جدا ہوں گے۔ اکھٹے ہونے کی صورت میں مسلم لیگ ن کو سینٹر اور اپر پنجاب جہاں ان کا ووٹ بینک زیادہ ہے، وہاں بھی سیٹیں اتحادیوں کو دینا ہوں گی۔ لیکن ابھی یہ قبل از وقت ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ٹکٹ کا حتمی فیصلہ تو نواز شریف ہی کریں گے البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ٹکٹ کے امیدواروں کی مراد نہ پوری ہونے پر وہ کس حد تک نقصان پارٹی کے خلاف جا سکتے ہیں تو یہ پارٹ آف گیم ہے اور یہ ہر پارٹی میں ایک حد تک ہوتا ہی ہے۔‘
مسلم لیگ ن کی پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری نے بتایا کہ ’ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے مسلم لیگ ن کا ایک بورڈ ہے جو فیصلہ کرتا ہے۔ اور کوشش کی جاتی ہے بہترین امیدواروں کا انتخاب کیا جائے۔ ہماری تیاری مکمل ہے۔ اگر الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرتا ہے تو اس کے بعد ٹکٹوں کی تقسیم اور دیگر معاملات شروع کیے جائیں گے۔‘
تحریک انصاف کن کو ٹکٹ دے گی؟
چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ اس بار وہ امیدواروں کا انتخاب خود کریں گے۔ کیا عملی طور پر پارٹی کے اندر ایسا کرنا ممکن ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے یہ تھوڑا مشکل کام ہو گا۔ خاص طور پر جب چوہدری پرویز الٰہی بھی اب باضابطہ طور پر پارٹی میں آ چکے ہیں اور بھی بڑے بڑے نام ہیں پارٹی میں۔ لیکن جیسا کہ عمران خان کا اپنا ایک انداز ہے کہ وہ کسی بھی بات پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اب ان کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ وہ بہت زیادہ مقبول ہیں، جس کو بھی ٹکٹ دیں گے وہ جیت جائے گا۔ میرا خیال ہے وہ مکمل تو نہیں بڑی حد تک امیدواروں کا انتخاب کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ برس ہونے پنجاب میں 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات نے پی ٹی آئی نے 15 جیتی تھیں۔
ان تمام حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدواروں کا مقابلہ سابقہ امیدواروں سے تھا جو ن لیگ کے ٹکٹ پر تھے۔
