Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خواتین پر وہ دروازے کھل رہے ہیں جو کبھی بند تھے

زندگی کے ہر شعبے میں سعودی خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
پچھلے ایک عشرے کے دوران سعودی خواتین نے پہلی بار کچھ ایسے قدم اٹھائے جو پہلے دیکھنے میں نہیں آئے تھے۔ وہ تعلیم کا میدان ہو یا پیشہ ورانہ مہارتیں، ہر جگہ ہی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے جبکہ صنعتوں جیسے مردوں کی غالب اکثریت رکھنے والے میدان میں نمایاں کردار ادا کرنے میں بھی کامیاب رہی ہیں۔
پوری دنیا میں زیادہ تر کبھی مذہب اور کبھی روایات کے نام پر خواتین کو سماجی زندگی میں مسائل کا سامنا رہا ہے۔
صاحبان اختیار کی جانب سے اسلام کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے خواتین کو برابری اور نمایاں مقام تب دیا تھا جب انسانی حقوق اور صنفی برابری کے قوانین تحریری شکل میں بنے بھی نہیں تھے۔
شاہ سلمان اور ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات کے بعد سے چند برس کے دوران ہی سعودی خواتین کو پھر سے ان کا جائز مقام مل گیا ہے اور آج وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔
پچھلے ماہ سعودی سپیس کمیشن (ایس ایس سی) نے اعلان کیا تھا کہ دو خواتین خلانورد بھی  بین الاقوامی سپیس سٹیشن جانے والے ایکسیم ٹو پرائیویٹ مشن کا حصہ ہوں گی جو اگلے برس روانہ ہو گا۔
علی القرنی اور ریانہ برنوی پہلی سعودی خواتین خلانورد ہیں جو اس خلائی ٹیم کا حصہ ہوں گی جو کہ 10 روز خلا میں گزارے گی۔ جہاں یہ دونوں خواتین بائیومیڈیکل اور طبعیات کے حوالے سے کئی تجربات بھی کریں گی۔
اسی طرحی مریم فردوس اور علی الغامدی جو کہ سعودی سپیس فلائٹ پروگرام سے وابستہ ہیں، کو بھی خلائی مشن میں بھجوانے کی تربیت دی جائے گی۔
ایک ماہ قبل ایس ایس سی نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ 34 خواتین ٹرین ڈرائیورز نے محکمے میں شمولیت اختیار کی ہے جو آج کل براستہ جدہ مکہ اور مدینہ کے درمیان تیز رفتار ٹرینز چلا رہی ہیں۔

امل شوغیر کا کہنا ہے کہ اس سال کے بیچ میں 40 فیصد وظائف خواتین کے لیے تھے (فوٹو: عرب نیوز)

مذکورہ خلانور اور ٹرین ڈرائیور ان ہزاروں سعودی خواتین میں سے صرف چند ہی ہیں جو اب سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھمیٹکس سمیت ان تمام میدانوں میں اپنا نمایاں مقام بنا چکی ہیں جن پر پہلے صرف مرد غالب تھے۔
مملکت میں مختلف میدانوں میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کے لیے کئی میدانوں میں پروگرام شروع کیے گئے ہیں ان میں شعبہ توانائی، انجینیئرنگ، ٹیکنالوجی، تعمیرات، مینوفیکچرنگ، مصنوعی ذہانت، تحقیق اور جدت طرازی سمیت دوسرے میدان شامل ہیں اور اس کا مقصد مقامی ورک فورس تیار کرنا ہے۔
سعودی عرب کے وژن 2030 کے اصلاحاتی ایجنڈے جو کہ مملکت کی معیشت کو تیل سے ہٹ کر مجموعی طور پر معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، میں یہ حکمت عملی شامل ہے کہ صلاحیت کے حامل امیدواروں کو ایک جیسے مواقع دیے جائیں۔
آج سودی عرب میں خواتین پبلک اور نجی شعبے میں جو کردار ادا کر رہی ہیں وہ ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہے کیونکہ اصلاحات سے خواتین کو ان میدانوں میں آنے کا موقع ملا ہے جہاں روایتی طور پر مردوں کا ہی غلبہ تھا۔

سعودی خواتین تیز رفتار ٹرین کے ڈرائیور کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

آج سعودی خواتین خلانور بننے کے علاوہ انجینیئر، آرکیٹکٹ، مکینک، فوجی اور سائبر سکیورٹی پروفیشنلز سمیت دیگر کئی ذمہ دارایاں نبھاتی نظر آ رہی ہیں، جبکہ سعودی خواتین ایسی صنعتوں کا بھی حصہ بن رہی ہیں جو دنیا بھر میں سعودی ورثے اور ثقافت کو اجاگر کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔
سب کو ایک جیسے مواقع دلانے میں سے اہم کردار تعلیم کا ہے اور سعودی عرب یونیورسل لٹریسی لیول تک پہنچنے کے قریب ہے۔ یہاں بالغوں میں خواندگی کی شرح 95 فیصد جبکہ 99 فیصد تک ہے اور وہ لکھ پڑھ سکتے ہیں۔
سعودی عرب میں یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح میں بھی بہت اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی حکومت اپنی جی ڈی پی کا بڑا حصہ تعلیم پر صرف کر رہا ہے۔
وزارت تعلیم کی جانب سے ہزاروں طلبا و طالبات کو وظائف دیے جا رہے ہیں۔ ان کو بیرون ملک یونیورسٹیوں میں بھجوایا جا رہا ہے اور ان واپسی پر ان کا علم دوسروں تک پہنچاتے ہوئے ایک جدید، متحریک اور متنوع معیشت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔

 


دو سعودی خواتین بین الاقوامی سپیس سٹیشن جانے والے ایکسیم ٹو پرائیویٹ مشن کا حصہ ہوں گی (فوٹو: عرب نیوز)

وزرات تعلیم کے شعبہ وظائف کی نائب وزیر ڈاکٹر امل شوغیر نے عرب نیوز کو بتایا کہ مہیا کیے جانے والے وظائف میں زیادہ تر ایسے ہیں جن سے مقامی طور پر ورک فورس بڑھے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت تعلیم دوسری وزارتوں اور محکموں کے ساتھ مل کر تحقیق کرتی ہے تاکہ مختلف شعبہ جات کے لیے مطلوبہ ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔
’اس سال کے بیچ میں 40 فیصد وظائف خواتین کے لیے تھے جو اب تک پروگرام کا سب سے بڑا حصہ ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مخصوص مہارتوں کے پیش نظر ہم نے طلبا و طالبات کو ان ماسٹرز اور پی ایچ ڈی پروگراموں کا حصہ بننے کا کہا ہے جن کی زیادہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور جن کی سفارشات مملکت کے تحقیقی و ترقیاتی ادارے نے دی ہیں۔‘
خواتین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آج وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچ رہی ہیں اور ایسے راستے تلاش کر رہی ہیں جن سے انہیں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھنے کے مواقع ملیں۔
ان کے مطابق ’اب خواتین کسی انجانے خوف کا شکار نہیں اور روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھا رہی ہیں۔‘

شیئر: