Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں پی ٹی آئی کی ریلی: ’سب یہی جاننا چاہتے تھے کتنے آدمی ہیں‘

تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ یہ ایک کامیاب شو تھا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بالآخر لاہور میں ریلی نکال ہی لی۔ اس سے پہلے دو مرتبہ ان کی ریلی نکالنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ پیر کی صبح سے ہی پولیس اور انتظامیہ نے ’کنٹینر بندوبست‘ شروع کر دیے۔
زمان پارک سے علامہ اقبال روڑ سے ہوتے ہوئے ریلی نے اندرون لاہور سے گزرتے داتا دربار پر اختتام پزیر ہونا تھا۔ پولیس نے ریلی کے روٹ کو منسلک تمام رابطہ سڑکوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا تھا۔
دومرتبہ تو مال روڈ سے زمان پارک جانے والی سڑک کو بھی بند کیا گیا۔ جس سے پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں میں کئی طرح کے خدشات پیدا ہوئے۔ عین جس وقت ریلی نکالنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو مقامی میڈیا نے خبر نشر کی کہ اسلام آباد کی عدالت کی جانب سے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری بحال کیے جانے کے بعد اسلام آباد پولیس کی ٹیم لاہور پہنچ چکی ہے۔ ایسی خبروں کے باعث ماحول میں زیادہ تناؤ پیدا ہو گیا۔
عمران کی گاڑی گھر سے ساڑھے تین بجے نکلی تو کارکنوں نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔ پی ٹی آئی کی منصوبہ بندی کے مطابق عمران خان کو بلٹ پروف گاڑی کے اندر ہی رہنا تھا اور ان کا خطاب بھی گاڑی کے اندر سے ہی کروایا جانا تھا۔ زمان پارک سے جب ریلی نکلی تو یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کتنے لوگ عمران خان کی کال پر باہر نکلے ہیں۔ کیونکہ زمان پارک کے سامنے لگے خیمے اور نہر کے باعث صرف ایک طرف کی سڑک ہی استعمال ہو رہی تھی۔
خیال رہے گزشتہ برس لانگ مارچ کے دوران زخمی ہونے کے بعد وہ پہلی دفعہ ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔ اس وجہ سے بھی میڈیا ہو یا سیاسی مخالفین سب یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ’کتنے آدمی تھے؟‘۔ زمان پارک سے دھرم پورہ پل تک اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ البتہ جب ریلی مین گڑھی شاہو روڈ پر نکلی تو صورت واضع ہونا شروع ہوئی۔
مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر مریم نواز نے اس جگہ سے ریلی کے فضائی مناظر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کر کے مذاق اڑایا اور لکھا کہ ’یہ ہے انقلاب‘۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما ٹوئٹر پر اسے لاہور کا اب تک کا کامیاب شو قرار دے رہے تھے۔
تاہم یہاں ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب صحافیوں کے لیے مختص ایک گروپ میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے ریلی کی ویڈیو شیئر کی۔ انہیں اسی وقت بتایا گیا کہ یہ ویڈیو پرانی ریلی کی ہے اور لاہور کے لبرٹی چوک کی ہے۔ انہیں احساس ہونے کے بعد اس ویڈیو کو گروپ سے ہٹانا پڑا۔ اسی طرح ایک مرتبہ پھر ایک فوٹیج شیئر کی گئی جو گوجرانوالہ میں پی ٹی آئی کے گزشتہ لانگ مارچ کے مناظر تھے۔ نشاندہی پر یہ کلپ بھی واپس لے لیا گیا۔
میڈیا کے لیے بنائے گئے اس واٹس ایپ گروپ میں صحافیوں کے علاوہ تحریک انصاف کی اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ممبران بھی موجود ہیں۔ فواد چوہدری نے گروپ میں لکھا کہ ریلی کے کلپ شیئر کیے جائیں تو ان کی سوشل میڈیا کی ٹیم نے چند ویڈیوز شیئر کیں، لیکن وہ فواد چوہدری کو پسند نہیں آئیں۔ انہوں نے باقاعدہ لکھا کہ کوئی پروفیشنل ویڈیو شیئر کریں۔
ریلی کے شرکا کی تعداد جاننے کے لیے جب سرکاری محکموں سے رابطہ کیا گیا تو وہاں یہ صورت حال تھی کہ سپیشل برانچ اور پولیس کی رپورٹ کے مطابق ریلی کے آغاز میں شرکا کی تعداد 6 سے 8 ہزار تھی۔ جبکہ انٹیلجنس اداروں نے یہ تعداد 5 سے 7 ہزار بتائی۔ شام کے بعد ریلی ایک موریہ پل سے ہوتی ہوئی اندرون لاہور میں داخل ہوئی اور آتش بازی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔

پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین اسے ایک ناکام ریلی قرار دے رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ریلی کے شرکا سے وقتا فوقتا پوچھنے پر ریلی کے حوالے سے دلچسپ تبصرے سننے کو ملتے۔ ایک کارکن نے کہا کہ ’جتنے ہم سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں اگر اس سے آدھے بھی نکل آتے تو اس ریلی سے دس گنا بڑی ریلی ہوتی۔‘
کچھ کارکن اس کو ایک کامیاب ریلی قرار دے رہے تھے اور کچھ کے خیال میں لوگ صرف اپنے گھروں سے نکل کر شرکت کر کے واپس گھروں میں جا رہے تھے یعنی ہر علاقے کا اپنا کراوڈ ہے۔
تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ یہ ایک کامیاب شو تھا، جبکہ ان کے سیاسی مخالفین اسے ایک ناکام ریلی قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان نے بھاٹی گیٹ کے قریب اپنی تقریر میں یہ اعلان کر دیا کہ اگلے اتوار مینار پاکستان پر جلسہ ہوگا۔ اس کے بعد عمران خان واپس اپنے گھر زمان پارک پہنچے تو مقامی میڈیا پر ایک مرتبہ پھر خبریں چلنا شروع ہو گئیں کہ اسلام آباد پولیس اور لاہور پولیس کے درمیان طویل مشاورت ختم ہو گئی ہے اور اب اگلے چوبیس گھنٹوں میں عمران خان کو عدالتی حکم پر اسلام آباد پہنچایا جائے گا۔

شیئر: