Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

توشہ خانہ کی نئی پالیسی: 300 ڈالر سے مہنگا تحفہ ریاست کی ملکیت

وفاقی کابینہ نے آٹھ مارچ کو نئی توشہ خانہ پالیسی کی منظوری دی۔ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے توشہ خانہ میں آنے والے تحائف کے حوالے سے نئی پالیسی کا اجرا کر دیا ہے جس کے تحت صدر، وزیراعظم، وزراء اور اعلٰی سول و فوجی افسران اور ججز تین سو ڈالر سے کم مالیت کا تحفہ مقررہ قیمت کی ادائیگی کے بعد حاصل کر سکیں گے۔
اس پالیسی کے تحت مہنگے تحفوں کی نیلامی کی جائے گی اور عوام بھی نیلامی میں حصہ لے سکیں گے۔ 
وفاقی کابینہ نے آٹھ مارچ کو نئی توشہ خانہ پالیسی کی منظوری دی جسے کابینہ ڈویژن نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کر دیا ہے۔
نئی پالیسی 14 پیراگرافس پر مبنی ہے جس میں کہا گیا کہ ریاستی یا حکومتی عہدیدار بیرون ملک دورے کے دوران ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائیں گے۔
’اگر کسی نے 30 دن میں توشہ خانہ کو آگاہ نہ کیا اور چیکنگ پر تحفہ اس کے پاس پایا گیا تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘ 
اسی طرح اگر کوئی غیرملکی وفد پاکستان کا دورہ کرتا ہے تو دفتر خارجہ چیف آف پروٹوکول یا اس کے نمائندے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی طرف پاکستانی حکام کو دیے گئے تحائف کی فہرست توشہ خانہ کو فراہم کرے۔ اگر پاکستانی وفد بیرون ملک کا دورہ کر رہا ہوگا تو پھر یہ ذمہ داری اس ملک میں متعین پاکستانی سفیر کی ہوگی۔ 
نئی پالیسی کے تحت ایسی اشیاء جن کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور انھیں فوری طور پر استعمال میں لایا جا سکتا جیسے مثال کے طور پر کھانے پینے کی اشیا تو وہ جس بھی سرکاری شخصیت کو ملیں تو وہ توشہ خانہ میں جمع کرائے یا رپورٹ کیے بغیر بھی استعمال کر سکتا ہے۔‘ 

سونے اور چاندی کے تحائف سٹیٹ بینک میں جمع کروانا ہوں گے۔ (فوٹو: کابینہ ڈویژن)

توشہ خانہ پالیسی کے تحت ’پاکستان کے دورے پر آنے والے غیرملکی سربراہان یا حکام سے گریڈ ایک سے چار سے اوپر کے افسران کیش ایوارڈ وصول کرنے کے مجاذ نہیں ہیں۔ اگر کسی وجہ سے کیش ایوارڈ وصول کرنے سے انکار ممکن نہ رہے تو اسے وصول کرنے کے فوری بعد قومی خزانے میں جمع کرانا لازمی ہوگا اور اس کی رسید توشہ خانہ مین دینا ہو گی۔‘ 
نئی پالیسی میں سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کے علاوہ تمام ریاستی اور سرکاری حکام پر پاکستان مین متعین سفارت کاروں سے اپنے اور اہل خانہ کے لیے تحائف وصول کرنے کے مجاز نہیں ہیں اور اگر ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر تحفہ لینے پڑ جائے تو اسے فوری طور پر توشہ خانہ میں جمع کرانا ہوگا اور ریاست کی ملکیت ہوگا۔
تاہم سربراہ مملکت و حکومت اور ان کے اہل خانہ کو ملنے والے تحائف قیمت کے تعین کے لیے توشہ خانہ میں جمع ہوں گے جنھیں وہ طے شدہ طریقہ کار کے تحت مقررہ قیمت ادا کرکے حاصل کر سکیں گے۔
یہ شرط اداروں کو ملنے والے تحائف اور عطیات پر لاگو نہیں ہوں گی۔ 
نئی توشہ خانہ پالیسی کے تحت ’300 ڈالر سے کم مالیت کے تحائف قیمت کے تعین کے بعد مقررہ قیمت ادا کر کے حاصل کیے جا سکیں گے۔ اس سے زائد مالیت کے تحائف براہ راست ریاست کی ملکیت بن جائیں گے۔ تاہم قیمتی اور نادر تحائف کا باضابطہ ریکارڈ بنے گا اور انھیں سرکاری عمارتوں میں آویزاں کیا جائے گا۔‘ 
تحائف میں ملنے والی گاڑیاں سینٹرل پُول اور قیمتی نوادرات سرکاری مقامات پر سجائے جائیں گے۔
’تحائف کی مالیت کا تعین ایف بی آر کے ماہر افسران اور نجی فرم سے کروایا جائے گا جبکہ تحفے میں ملنے والا اسلحے کی مالیت کا تعین نجی فرم اور اسلحہ ساز فیکٹری پی او ایف کرے گی۔‘

نیلامی کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم بیت المال یا نامور خیراتی اداروں کو دی جائے گی۔ (فوٹو: پِک پیڈیا)

کوئی جانور بطور تحفہ ملنے کی صورت میں اسے فوری طور پر قریبی ویٹرنری فارم میں بھیجا جائے گا جہاں اس کو جلد از جلد فروخت کیا جائے گا یا زولوجیکل گارڈن کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ایسے کسی تحفے کی قیمت اس وقت درج نہیں کی جائے گی جب تک اس کی رقم مل نہیں جاتی۔ 
اسی طرح سونے اور چاندی کے تحائف سٹیٹ بینک میں جمع کروانا ہوں گے۔ 
تین سو ڈالر سے کم مالیت کا تحفہ توشہ خانہ میں جمع کرانے کے 30 دن کے اندر مقررہ قیمت ادا کرکے وصول کیا جا سکے گا اور اگر کوئی 30 دن میں تحفہ وصول نہیں کرتا تو وہ از خود ریاست کی ملکیت بن جائے گا اور نیلامی کے طے شدہ طریقہ کار کے تحت نیلام کر دیے جائیں گے۔ 
سیکریٹری کابینہ ڈویژن آویزاں کیے گئے تمام تحائف کا سالانہ معائنہ کریں گے اور بچ جانے والے تحائف کی نیلامی یا خیراتی اداروں کو بطور عطیہ دیں گے جس کا طریقہ کار بھی پالیسی میں وضع کیا گیا ہے۔‘ 
کابینہ ڈویژن سال میں ایک یا دو بار تحائف کی عوامی نیلامی کا انتظام کرے گی۔ نیلامی کے لیے تحائف کی تازہ ترین قیمت اور ان کی خصوصیات سے متعلق اشتہارات اخبارات اور کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر شائع کیے جائیں گے۔ 
نیلامی کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم بیت المال یا نامور خیراتی اداروں کو دی جائے گی جس کا فیصلہ بھی کابینہ ڈویژن کی کمیٹی ہی کرے گی۔
اس پالیسی کا اطلاق صدر، وزیراعظم، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، صوبائی گورنرز، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء، چیف جسٹس اور ججز صاحبان، سول و ملٹری افسران، سرکاری ملازمین، خو مختار، نیم خودمختار اداروں کے سربراہان افسران اور ملازمین سمیت صوبائی افسران یا کسی بھی سرکاری حیثیت میں بیرون ملک دورہ کرنے والوں پر ہوگا۔ 

شیئر: