Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی شہریوں کی نگاہیں ریاض تہران معاہدے پر

عرب ممالک سمیت کئی ممالک نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
دوہفتے قبل چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے تاریخی معاہدے کے بعد کے حالات کو سعودی شہری ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی شہری اس بڑی پیش رفت کے حوالے سے اندیشوں، شکوک اور محتاط قسم کے مثبت ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
لوگ کافی توجہ سے دیکھ رہے ہیں کہ اس معاہدے کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔
سات برس قبل دنیا نے ایک ہولناک منظر کا مشاہدہ کیا تھا جب تہران میں مظاہرین نے سعودی سفارت خانے اور قونصلیٹ کو نذرِآتش کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں شدید تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔
دو ہفتے قبل ہونے والے معاہدے کے بعد اس دیرینہ سفارتی تناؤ میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
سعودی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق اس معاہدے میں ریاض اور تہران نے ریاستوں کی خودمختاری کے احترام اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

دو ہفتے قبل ہونے والے معاہدے کے بعد اس دیرینہ سفارتی تناؤ میں کمی دیکھی جا رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس سب کے باوجود ایران کی جانب سے ماضی میں مملکت کے خلاف کیے گئے جارحانہ اقدامات کی یاد بھی لوگوں کے ذہنوں میں ہے۔
ان واقعات میں 1987 کے مکہ میں ہونے والے فسادات، 1996 میں خبار ٹاور پر حملے، 2011 میں امریکہ میں سعودی سفیر عادل الجبیر کے قتل کی منصوبہ بندی اور 2019 میں سعودی آئل ریفائنری پر حملے شامل ہیں۔
سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ مملکت کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے کا مطلب یہ نہیں کہ ان دونوں ممالک کے تمام اختلافات ختم ہو چکے ہیں بلکہ اس کا مقصد ’تنازعات کا بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل‘ تلاش کرنا ہے۔
یہ معاہدہ چونکہ گزشتہ دہائیوں کی ایک بڑی پیش رفت ہے، اس لیے سعودی شہری بھی سوشل میڈیا پر اس بارے میں بات چیت کر رہے ہیں۔
بہت سے افراد حکومت کے اس اقدام کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے بعد 2001 میں طے پانے والے معاہدے کی بحالی کی بھی توقع ہے جس کے تحت دہشت گردی، منشیات کی سمگلنگ، منی لانڈرنگ اور دیگر مجرمانہ سرگرمیاں روکنے پر اتفاق ہوا تھا۔
نائف عرب یونیورسٹی فار سکیورٹی سائنسز کے پروفیسر ریٹائر میجر جنرل صالح محمد المالک نے کہا ہے کہ ’سعودی ایران معاہدہ خلیجی خطے، مشرق وسطیٰ اور عالمی برادری کے لیے سکیورٹی کے حوالے سے مزید فوائد لے کر آئے گا جبکہ سعودی عرب خطے میں ہمیشہ امن اور استحکام کی بات کرتا رہا ہے۔‘

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ سعودی عرب کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرے گا اور ایران کو بھی اس کا فائدہ پہنچے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ اس معاہدے کے بعد ایران کی خطے کے دیگر ممالک میں مداخلت محدود ہو جائے گی جس کے نتیجے میں امن بحال ہو گا اور حکومتیں اپنی توجہ اصلاحات کی جانب مرکوز کریں گی اور یمن میں بھی ترقی کا عمل شروع ہو گا۔‘
ابھی تک اس معاہدے کی تمام تفصیلات واضح نہیں ہیں۔
ان حالات میں کچھ سعودی شہری سمجھتے ہیں کہ مملکت کی ترجیح اندرونی معاملات اور ملک کی صلاحیتوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔
دوسری جانب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ سعودی عرب کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرے گا اور ایران کو بھی اس کا فائدہ پہنچے گا۔
ایک سعودی شہری نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ ایران میں کیا چل رہا ہے۔ ہم وہی کچھ جانتے ہیں جو ہم سکرینوں پر دیکھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’جو کچھ بھی ہے، یوں لگتا ہے کہ ملک (ایران) تقسیم کا شکار ہے جہاں لوگوں کی بڑی تعداد مشکل میں ہے۔ وہ ایک خوشحال ایران دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں ان کی خواہشوں کے مطابق ماحول ملنا چاہیے۔‘

سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے کا دنیا کے تمام اہم ممالک نے خیرمقدم کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ان کے علاوہ ہر ملک ترقی کر رہا ہے۔ اب انہیں بھی ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہو جانا چاہیے۔‘
خیال رہے کہ سعودی عرب اور اس کے شہریوں نے حالیہ برسوں میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔
سعودی حکام اور شہریوں کا دیرینہ موقف یہی ہے کہ مملکت اور ایران کے درمیان کئی اعتبار سے تاریخی، مذہبی اور جغرافیائی روابط ہیں۔ اور یہ مشترک چیزیں ’حریفوں‘ کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی کاوشوں میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

شیئر: